امام علی (ع) نے کتاب خدا اور سنت رسول کے مطابق عمل کرنے کو قبول کرتے ہوئے، سیرت شیخین پر عمل سے انکار کیا اور مصلحت کی بنا پر جھوٹ کا سہارا نہ لیا۔
حجت الاسلام والمسلمین ناصر نقویان نے "انتخابات اور سیاسی اخلاقیات" کی نشست میں کہا: اگر ہم اسلام کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاست برائے سیاست اور اقتدار برائے طاقت کے فارمولے پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو تمام موارد میں تحریف کے امکان اور ہر کام کےلئے جواز ہموار ہوگی اور ہم اپنے خیال کے مطابق اسے عیں اخلاق تصور کرنے لگیں گے۔
جماران کے مطابق؛ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے لکچرار نے " انجمن اندیشه و قلم" کی عمومی نشست میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ « ملکی مسائل سے نمٹنے کےلئے ہمیں امام خمینی(رہ) کے راستے پر واپس آنا چاہئے" کہا: ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہےکہ امام خمینی(رہ) نے کوئی ایسا کام انجام نہیں دیا جو قومی اختلاف کا باعث بنے۔ امام چاہتے تو کہہ سکتے تھے: " بعض حضرات، انتشار کا باعث بن رہے ہیں" تاہم انہوں نے تمام امور کی ذمہ داری اپنے ذمے لیتے ہوئے فرمایا: " میں نے اپنی عزت اور آبرو کا سودا اپنے رب سے کیا ہے" ہمیں اس عظیم انسان کی سانسوں کے سائے میں واپس جانے کی ضرورت ہے۔
نقویان نے کہا: میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش امام، بہت سے لوگوں کو اپنی صوابدید کے مطابق عمل کرنے کی ہرگز اجازت نہ دیتے، تاہم تحقیق کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ بہت سے حقائق سے امام، آگاہ نہیں تھے۔ بہت سے افراد فون ڈائل کرکے اپنی صوابدید کے مطابق کام انجام دینے کے بعد توجیہ پیش کرتے ہوئے کہتے تھے: اس کام کی ممنوعیت پر مبنی امام کے موقف سے ہم آگاہ نہیں تھے، اور ایسے مسائل اس بات کا سبب قرار پائے کہ آج ہم اس بات کا پورے یقین سے دعوی نہیں کرسکتے کہ ہم اسی نبی کے پیروکار ہیں جنہوں نے اپنی بعثت کے 23 سالہ عرصے میں 21 برس تک ابوسفیان کے ساتھ بر سر پیکار رہنے کے بعد، فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے ابوسفیان کے ظاہری اسلام کو قبول کیا جبکہ آپ جانتے تھے کہ اس کا اسلام قبول کرنا جھوٹ پر مبنی ہے۔
مذہبی اسکالر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ « ہمیں پہلے دینداری کے تصور کو سمجھنے اور معیارات کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے» کہا: مذہبی تعلیمات میں اسلام کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں:
بعض کا خیال ہےکہ اسلام، عرفان اور تصوف سے عبارت ہے لہذا اس نظرئے کی رو سے جو سب سے زیادہ عارف ہوگا وہی زیاده مسلمان کہلائےگا۔
دوسروں کا خیال ہےکہ اسلام فلسفہ، منطق، حکمت اور عقل کا مذہب ہے؛ اس نظرئے کی رو سے زیادہ سمجھدار اور عقلمند انسان جو خدا، قیامت اور دین کے احکام کو دوسروں سے بہتر طریقے سے ثابت کرسکتا ہے، پکا مسلمان کہے جانے کا مستحق ہے۔
بعض دوسرے لوگوں کی نظر میں وہ شخص پکا مسلمان ہوسکتا ہے جو زیادہ عبادت گزار ہو اور اللہ کے فرامیں کے آگے سر تسلیم خم ہو۔
نقویان نے کہا: حال ہی میں، ہمارے ایک دوست نے ایک نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے: "اسلام، طاقت اور سیاست کا مذہب ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ اقتدار اور سیاست کے حصول کےلئے تشریف لائے تھے لہذا ہمیں طاقت اور اقتدار کے حصول کےلئے جدوجہد کرنا چاہئے، کیونکہ طاقت اور اقتدار کے سائے میں بہت سے اہداف کو عملی جامه پہنایا جاسکتا ہے" جبکہ اس فکر کا تعلق میکیاولیزم نظرئے سے ہے۔
نقویان نے ان نظریات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ان تمام نظریات میں سے کوئی بھی نظریہ درست نہیں، کیونکہ اسلام کی اولین اور بنیادی تعلیم، تربیت، اخلاقیات اور تقوی سے متعلق ہے؛ قرآن نے جس اعزازی تمغے سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کو نوازا ہے وہ اخلاقی تمغہ ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: " وَ اِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظیم "؛ بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
قرآن کریم میں اسلامی سماج کے ولی کا تعارف اس طرح کیا گیا ہےکہ وه نماز کے دوران بھی غریبوں اور ناداروں کی فکر میں رہتا ہے اور نماز کے دوران اپنی انگوٹھی نادار کے حوالے کرتا ہے کیونکہ وہ اخلاق اور مہربانیوں کا پیکر ہے۔
اسلام کی حقیقت کو تربیتی اور اخلاقی نقوش کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہےکہ ہمیشہ اول وقت نماز پڑھنے والے ان دو افراد میں سے جو اخلاق سے آراستہ ہے اور دوسروں کو زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے، وہ زیادہ مسلمان ہے۔
نقویان نے کہا: امام علیہ السلام سے کہا گیا کہ صرف ایک شرط کے ساتھ ان کی خلافت کو قبول کرنے کےلئے تیار ہیں کہ وه اللہ کی کتاب، سنت رسول اور شیخین کی سیرت کے مطابق عمل کریں؛ تاہم امام علیہ السلام نے کتاب خدا اور سنت رسول کے مطابق عمل کرنے کو قبول کرتے ہوئے سیرت شیخین پر عمل سے انکار کیا؛ امام علیہ السلام چاہتے تو مصلحت کی بنا پر جھوٹ کا سہارا لے سکتے تھے لیکن ایسا ہرگز نہیں کیا کیونکہ امام علیہ السلام، ایسے نظام کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جو صداقت پر مبنی ہو، وہ ایسی حکومت کے خواہاں تھے جو اخلاقیات، تربیت اور تقوی کی اساس پر قائم ہو۔
انہوں نے مزید کہا: اگر ہم مذہب کے نام پر حکومت کے خواہاں ہیں تو ایسی حکومت کے معیاری خد و خال، تربیتی اصولوں پر قائم ہونا چاہئے۔ یہ بات اتنی اہمیت کی حامل نہیں کہ نوجوان نسل کس مقصد کے تحت اعتکاف کےلئے مساجد کا رخ کرتی ہے بلکہ جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ رشوت اور فراڈ جیسے کیس میں عدلیہ سے رجوع کئے جانے والے اعداد و شمار کی تعداد ہےکہ یہ تعداد کتنی ہے؟
معاشرے میں کس حد تک اخلاقی زبون حالی میں اضافہ ہوا ہے؟
اخلاقیات سے بھرپور معاشرے میں جو شخص صدارت کا اہل قرار پاتا ہے وہ اس مقام تک پہنچنے کےلئے برے اخلاق، بد دیانتی اور جھوٹ کا ہرگز سہارا نہیں لیتا اور یہ مسئلہ اہمیت کا حامل ہے۔