امام خمینی(رح) کے مکتب سے: حلم کی فضیلت، قرآن وسنّت کی روشنی میں

امام خمینی(رح) کے مکتب سے: حلم کی فضیلت، قرآن وسنّت کی روشنی میں

پس، حلم فطرت مخمورہ کا لازمہ ہے اور یہ عقل اور رحمٰن کا لشکر ہے، نیز یہ بهی معلوم ہوچکا کہ سفاہت فطرت مخمورہ کی مخالف اور جہل وابلیس کا لشکر ہے۔

حلم کی فضیلت میں یہی کافی ہے کہ ﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے آپ کو '' حلیم '' کے نام سے یاد فرماتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ٤٤ میں فرماتا ہے: (اِنَّہُ کانَ حَلِیماً غَفُوراً) (بہ تحقیق وہ بردبار اور بخشنے والا ہے)۔

سورہ احزاب کی آیت ٥١ میں ارشاد ہوتا ہے: (وَکانَ اﷲُ عَلِیماً حَلِیماً) (ﷲ خوب جاننے والا اور بردبار ہے) اس سے معلوم ہوا کہ حلم ان اوصاف کمالیہ میں سے ہے جن کا تعلّق کمالات مطلقہ سے ہے اور وہ وجود بلحاظ وجود کا مصداق ہے۔

تمام اوصاف کمالیہ رحمٰن کے لشکر ہیں، کیونکہ حق اور رحمٰن کے لشکر اس کا سایہ ہیں اور کسی چیز کا سایہ اس سے جدائی اور دوری والی مبانیت نہیں رکهتا۔ البتہ صفت کے لحاظ سے اختلاف مبانیت رکهتا ہے جسے تباین وصفی کہتے ہیں۔ اس سے مراد کمال ونقص کے لحاظ سے مختلف ہونا ہے۔ قرآن شریف میں اس باریک عرفانی نکتے اور برہان کے ذریعے ثابت حقیقت کو آیت اور نشانی کا نام دیا گیا ہے۔

اسی طرح ﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل الرحمٰن کو (جو عالم وجود کے کامل ترین اور عظیم ترین ہستیوں میں سے ہیں) حلیم کا نام دیا ہے۔ سورہ ہود کی آیت ٧٥ میں ارشاد ہے: (اِنَّ اِبْراہِیمَ لَحَلِیمٌ أوّاہٌ مُنِیْبٌ) (بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل اور ﷲ کی طرف رجوع کرنے والے تهے) حضرت اسماعیل ذبیح ﷲ کو بهی ﷲ نے حلم کی صفت کا حامل قرار دیا ہے۔ سورہ صافات آیت ١٠١ میں فرماتا ہے: (فَبَشَّرْنٰاہُ بِغُلامٍ حَلِیْم) ﷲ، حضرت ابراہیم ؑکو دی گئی بشارت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:'' ہم نے اسے ایک بردبار بیٹے کی خوشخبری دی''۔

ﷲ نے دیگر صفات کو چهوڑ کر اسماعیل کیلئے اس صفت کا انتخاب فرمایا۔ اس کی وجہ یہ تهی کہ حضرت ابراہیم خلیل ؑاس صفت کمالی کو نہایت اہمیت دیتے تهے یا ﷲ اسے اہمیت دیتا ہے یا دونوں کے ہاں اس کی اہمیت زیادہ ہے۔ بہرحال یہ آیت ''حلم'' کی اہمیت اور خصوصی مقام کو ثابت کرتی ہے۔

احادیث شریف میں اس عادت حسنہ کی شایان شان تعریف کی گئی ہے۔ کافی شریف، ج٢، ص٩١، باب الحلم، ح٤ میں حضرت باقر ؑ سے مروی ہے کہ:'' بہ تحقیق ﷲ با حیا اور حلیم انسان کو پسند کرتا ہے''۔

دوسری روایت (اصول کافی، ج٢، ص٩٢، باب الحلم، ح٨) میں فرماتا ہے کہ رسول اکرم ؐنے فرمایا:'' بے شک ﷲ دوست رکهتا ہے اس با حیا انسان کو جو حلیم، عفیف اور سخت با عفت ہو''۔

در باب محبت ومعرفت کے نزدیک یہ تعریف سب سے بڑی تعریف ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ﷲ کی محبت کا موازنہ کسی چیز سے نہیں کیا جاسکتا نہ کسی چیز کا موازنہ اس سے ہوسکتا ہے۔ شیخ بہائی ؒکے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا: '' ﷲ جس سے محبت کرتا ہے اسے اپنی ملاقات سے محروم نہیں کرتا اور اسے اپنی وصال سے سرافراز فرماتا ہے۔ صاحبان معرفت اور بیدار دل لوگوں کیلئے یہ خصوصیت کافی ہے''۔

الوسائل (ج١٥، ص٢٦٧، ابواب جہاد النفس، ح٩) میں شیخ صدوق ؒسے منقول ہے کہ حضرت امام صادقؑ اپنے آباء سے نقل کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ؐنے امیر المؤمنینؑ کو اپنی نصیحت میں فرمایا:

'' اے علی! کیا میں تم لوگوں کو اس شخص کی خبر نہ دوں جو اخلاق کے لحاظ سے تم لوگوں میں سب سے زیادہ مجه سے شبیہ ہو؟

عرض کیا: کیوں نہیں! اے رسول ﷲ۔

فرمایا: (یہ وہ شخص ہے) جو اخلاق کے لحاظ سے تم میں سب سے بہتر ہو، حلم کے لحاظ سے تم میں سب سے عظیم ہو، اپنے رشتہ داروں کیلئے تم میں سب سے اچها سلوک کرنے والا ہو اور اپنے بارے میں انصاف سے کام لینے میں تم میں سب سے آگے ہو''۔

پس، حلم فطرت مخمورہ کا لازمہ ہے اور یہ عقل اور رحمٰن کا لشکر ہے، نیز یہ بهی معلوم ہوچکا کہ سفاہت فطرت مخمورہ کی مخالف اور جہل وابلیس کا لشکر ہے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شرح حدیث جنود عقل وجہل سے اقتباس، ص342

ای میل کریں