بہت سارے علماء یہ جانتے ہیں کہ استفتاء کے لئے اجتماع اکٹھا کرنا ایک مرجع تقلید کا حق ہے۔ لہذا امام (رح) کے زمانے میں جو کوئی بھی اس منصب پر فائز تھا وہ اس طرح کے اجتماعات بلایا کرتے تھے، لیکن حضرت امام (رح) اس طرح کے اجتماعات سے شدید گریز کیا کرتے تھے۔ اگر چہ میں ان سے بہت زیادہ محبت کیا کرتا تھا لہذا میری بے حد خواہش تھی کہ امام (رح) بھی اس طرح کا کوئی اجتماع بلائیں۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ امام (رح) کے سامنے اس موضوع کو غیر محسوس انداز میں بیان کرتا ہوں شاید آپ اس بات پر راضی ہوجائیں اور ایسا کوئی پروگرام کروانے کی اجازت دے دیں۔
میں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ کس طرح سے بات کا آغاز کیا جائے۔ لہذا جب ان کے ہاں پہنچا تو میں نے عرض کی آقا آپ آقا بروجردی کے شاگردوں کو اکٹھا کریں اور پوری تحقیق کےساتھ ان کے دوستوں کی علمی پختگی کا اندازه لگائیں تا کہ ہم سب ان کے نظریات سے مستفید ہوسکیں۔ جب میں نے یه بات امام (رح) کی خدمت میں پیش کی تو آپ میری بات کے ختم ہونے تک اپنا سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے۔ جب میری بات پوری ہوگئی تو آپ نے اپنا سر اٹھایا اور میری طرح دیکھ کر فرمایا: آقا امینی! مجھے آپ سے یہ توقع تھی کہ آپ مجھے یہ کہیں کہ، خمینی ! تم بوڑھے ہو چکے ہو اور تمہاری زندگی کے دن پورے ہونے والے ہیں لہذا اپنی آخرت کی فکر کرو اور باقی زندگی غفلت میں نہ گزارو، جبکہ اس کے برعکس آپ مجھے جلسہ استفتاء کا مشورہ دے رہے ہیں۔ دیکھیں میں مرجع تقلید نہیں ہوں که ایسا جلسہ تشکیل دوں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ مجھے دنیا کی طرف دعوت دے رہے ہیں؟
اس واقعہ کے بعد میں بہت پریشان ہوگیا لہذا میں نے ان سے معذرت خواہی کی اور اس کے بعد میری محبت ان سے سینکڑوں گنا بڑھ گئی اور اکثر یہ سوچتا رہتا کہ اللہ کے ایسے بندے آج بھی موجود ہیں کہ جن کی نظروں میں دنیا واقعا حقیر ہیں۔