اگرچہ حکومت کی منشا یہ تھی کہ 2500/ سالہ جشن کا کافی پرچار کرکے ایک قومی افتخار قلمداد کرے لیکن اس جشن کے لئے فالتو خرچ ہونے والی خطیر رقم کے عام ہونے بالخصوص اس جشن کی مذمت میں امام (رح) کی طرف سے اعلانیہ صادر ہوا اور اس میں اس کے بعض حصوں کی نشاندہی کرائی گئی۔ جبکہ اس وقت ایران کے بعض علاقوں میں لوگ اپنا پیٹ بھر نے کے لئے اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور تھے، پہلوی حکومت کروڑوں تومان اس جشن پر فالتو خرچ کررہی تھی۔ اس کا ریڈیو، اخبار، شب نامہ و غیرہ سے پرچار باعث ہوا کہ اس جشن کی وجہ سے لوگ شاہ سے بیزار ہوگئے۔
بالخصوص جب اس وقت شائع ہوا کہ شاہ نے حکم دیا ہے کہ بیرونی مہمانوں کی میزبانی کے لئے خوبصورت ایرانی لڑکیوں کو پیش کیا جائے تا کہ وہ جس کا چاہیں انتخاب کریں اور جب تک وہ لوگ ایران میں ہیں یہ لڑکیاں ان کے ساتھ ساتھ رہیں کہ یہ کام ایرانی قوم کی انتہائی درجہ کی ذلت و رسوائی تھی۔
اس زمانہ میں اس جشن کے اخراجات اور تمام مسائل لوگوں کے درمیان عام ہوگئے تھے اور وہ لوگ اس جشن کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس جشن میں ایک چیز جس کا مذاق اڑایا گیا وہ شاہ کا مشہور جملہ ہے کہ تخت جمشید میں کوروش سے خطاب کرکے کہا تھا:
اے کوروش! راحت بخواب کہ ہم بیدار ہیں۔
بعض انقلابی علماء جیسے تہران کے مشہور واعظ مرحوم اسلامی نے بھی منبر پر مختلف طریقہ سے شاہ کے اس جملہ کا مذاق اڑایا۔ خلاصہ شاہ اس جشن سے جو مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا وہ حاصل نہیں کرسکا۔