امام خمینی(رح) نے اللہ تعالیٰ کےلئے قیام کیا۔ ہمیں اللہ کے فضل و کرم، اس کی خاص توجہات اور توفیقات پر امید رکھنا چاہیئے۔
مجمع تشخیص مصلحتِ نظام کے عضو نے انقلاب اور نظام کے اہداف کو آگے بڑھانے کےلئے وحدت اور انسجام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: اختلافات، خالی باتیں اور چی میگوئیاں، ان میں سے کوئی چیز ملک کی مشکلات کو حل نہیں کرے سکتی۔
جماران کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ علی اکبر ناطق نوری نے مزید کہا: ہمیں اللہ کے فضل و کرم، اس کی خاص توجہات اور توفیقات پر امید رکھنا چاہیئے۔ ہمیں مزید اخلاص اور وحدت کی ضرورت ہے اور ہمیں چاہیئے کہ حسن خلق، گشادہ چہرا، فراخ دل اور گشادہ سینے کے ساتھ عوام کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
انھوں عشرے مبارکہ فجر کی آمد پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے بانی کبیر انقلاب اسلامی کی یاد کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا اور مزید کہا: امام خمینی(رح) نے اللہ تعالیٰ کےلئے قیام کیا۔
جناب ناطق نوری نے سنہ ۵۷ کے ۱۲ فروردین (1 فروری 1979) کے واقعات کی طرف اشارہ اور یاد دہانی کی:
اس روز اللہ تعالی کے فضل و کرم کے سوا کوئی اور چیز امام کی جان کو نہیں بچا سکتی تھی، کیوںکہ اس وقت انقلابیوں کے ہاتھ ذرائع اور وسائل کے حوالے بالکل خالی تھا اور حکومت، بختیار کے ہاتھ میں تھی اور اس بات کا خوف تھا کہ کسی بھی وقت امام کے ہوائی جہاز کو گرائیں یا ہائی جیک کریں۔
ان حالات میں امام نے فرمایا تھا: " میں نے ایران کی ملت سے وعدہ کیا ہے، اگر زندہ رہا تو ان کے ساتھ رہوں گا اور اگر مرا تو ان کے درمیان جان دوں گا"۔
ناطق نوری نے مزید کہا: ۱۲ فروردین کے روز سنہ ۵۷ (1 فروری 1979) جب امام کا ہوائی جہاز تہران ائیرپورٹ پر اترا اور امام، بہشت زہراء کی سمت نکلیں، میری کار،ان کی گاڑی کے آگے، وائرلس کے روابط بر قرار کرنے کےلئے آگے آگے چل رہی تھی۔
راستے میں لاکھوں انقلابیوں کے استقبال اور ہجوم کی وجہ سے امام کی گاڑی راستے میں خراب اور روک گئی؛ میں نے فوراً خود کو امام کی گاڑی تک پہنچایا اور ان کے ہمراہ موجود خاص افراد کی مدد سے امام کو انہی شرائط و حالات کے پیش نظر پہلے سے تیار کردہ ہیلی کاپٹر پر بیٹھایا۔
میں، امام اور حاج احمد آقا کے ہمراہ ہیلی کاپٹر پر بیٹھ گیا؛ لیکن پائلٹ کو معلوم نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا ہے، میں نے کہا: " بیمارستان ہزار تختخوابی" کی سمت جائے جہاں میں نے اپنی گاڑی پارک کی تھی۔
ہیلی کاپٹر سے اترنے کے بعد میری گاڑی میں سوار ہوئے، میں نے پوچھا: کہاں جائیں؟ حاج احمد آقا نے اپنے رشتہ دار اور دوستوں میں سے کچھ کا نام لیا اور طے پایا کہ ان میں سے کسی ایک کے گھر جائیں، لیکن ہمارے پاس کسی کا مکمل ایڈریس نہیں تھا۔
ان شرائط اور حالات میں جب لاکھوں عوام بہشت زہرا میں جمع تھی، ہم امام اور حاج احمد اْقا کے ساتھ تہران کی سڑکوں میں مطلوبہ ایڈریس کے پیچھے تھے۔ تقریباً ان دو گھنٹوں میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ امام کہاں ہیں؟ اور یہاں تک کہ بعض نے " ساواک " ایجنسی سے امام کے بارے میں پوچھنے کےلئے ان سے رابطہ کیا تھا۔
جب امام جاننے والوں میں سے کسی کے گھر حاضر ہوئے اور وہاں نماز پڑھی، آپ نے تھوڑاسا آرام کیا پھر مدرسہ " رفاہ " میں انقلابیوں کی ملاقات کےلئے تشریف لے گئے اور یوں اللہ تعالی نے امام کو بچایا تاکہ ہمارا عظیم انقلاب اسلامی کامیابی ہو۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ