پرواز میں آده گهنٹے کی تاخیرہوئی۔ اس آده گهنٹے میں سب ڈر رہے تهے۔ خوف تها کہ کہیں امام (ره) کی پرواز کو کوئی مشکل پیش نہ آئی ہو۔ امام (ره) کے بهائی آیت اللہ پسندیدہ اور شورائے انقلاب کے سربراہ آیت اللہ مطہری ، امام (ره) کے استقبال کے لئے ہوائی جہاز کے اندر گئے پهر امام (ره) جہاز سے اتر آئے۔ طلباء کے ایک وفد نے ہوائی اڈے کے ہال میں " خمینی اے امام "کے عنوان سے ایک ترانہ پیش کیا۔ ان طلباء کے استاد محمد علی رجائی تهے۔ طے یہ ہو ا تها کہ استقبال کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ ٹی وی سے براہ راست نشر کی جائے گی؛ لیکن صرف چند منٹوں پر اکتفا کرتے ہوئے نشریات روک دی گئیں۔ اس دن بہت سارے افراد نے اپنی ٹی وی اسکرینیں توڑ ڈالیں۔ لوگوں کے جم غفیر اور اژدہام کے باعث ڈاکٹر بہشتی اور آیت اللہ طالقانی ، امام (ره) کے بہشت زہرا (س) جانے کے حق میں نہ تهے؛ لیکن امام (ره) ، بہشت زہرا (س) میں لوگوں سے ملاقات کرنے کا وعدہ کر چکے تهے؛ لہٰذا آپ وہاں جانے سے منصرف نہ ہوئے۔
چند روز پہلے ایک گاڑی تیار کی گئی تهی۔ محسن رفیق دوست نے ، جواس گاڑی کے ڈرائیور بهی ہوئے، اسے بلٹ پروف بنائی تهی۔ ڈرائیور کی سیٹ اور پچهلی سیٹوں کے درمیان ایک بلٹ پروف شیشہ لگا دیا تها۔ پچهلے دروازوں میں بهی فولادی سلیب گاڑ دئیے تهے۔ امام (ره) کو جب معلوم ہوا کہ گاڑی بلٹ پروف ہے تو آپ (ره) اگلی سیٹ پر ہی بیٹه گئے۔ کہنے لگے: ادهر آگے ہی بہتر ہے۔ آپ کی گاڑی کی حفاظت کے لئے ارد گرد کچه موٹر سائیکلز رکهی گئی تهیں؛ لیکن لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے وہ بهی گاڑی کے ساته نہ چل سکیں۔ امام (ره) کی حفاظت پر مقرر افراد میں سے صرف محمد رضا طالقانی گاڑی میں رہ گئے تهے۔
بہشت زہرا (س) پہنچنے سے کچه پہلے ہی گاڑی بند ہو گئی۔ امام (ره) پیدل جانے پر مصر تهے۔ کہہ رہے تهے کہ ہمیں بہشت زہرا (س) کے ۱۷ ویں حصے میں پہنچنا چاہئے وہاں پر لوگ منتظر ہیں۔ آخر کار ایک ہیلی کاپٹر لایا گیا اور اس کے ذریعے ۱۷ ویں حصے تک چلے گئے۔ وہاں پر ہوائی فوج کے کارکن جمع ہوچکے تهے جو ٹی وی براہ راست نشریات کے منقطع ہوجانے پر قریب سے استقبال امام (ره) کے مناظر دیکهنے کے لئے نکل پڑے تهے۔
بہشت زہرا (س) کا ۱۷ واں حصہ:
امام (ره) کی تقریر سے پہلے ایک ۱۱، ۱۲ سالہ لڑکے نے بعض قرآنی آیات کی تلاوت کی جو بعد میں محمد اصفہانی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بعد "بر خیزید اے شہیدان راہ خدا" یعنی " اے راہ حق کے شہیدو ! اٹهو" کے عنوان سے ایک ترانہ پیش کیا گیا۔ پهر امام (ره) اپنی تقریر شروع کرتے ہیں۔ آپ (ره) کی آواز بلند اور رسا ہے۔ جب امام (ره) فرماتے ہیں: " میں حکومت بناؤں گا، میں اس حکومت کے منہ پر طمانچہ رسید کروں گا۔۔۔۔" تو مجمع پہلے تالیاں اور سیٹیاں بجاتا ہے پهر احمد ناطق نوری "تکبیر" کی آواز بلند کرتے ہیں ۔ تقریروں کے دوران "تکبیر " کہنے کی روش اسی دن سے شروع ہوئی۔
امام (ره) کی تقریر ختم ہو چکی ہے ۔ آپ کو لے جانے کے لئے آنے والا ہیلی کاپٹر تین مرتبہ اترنے کی کوشش کرتا ہے ؛ لیکن ہجوم کی وجہ سے نہیں اتر سکتاتها۔ امام (ره) کی عبا گر جاتی ہےاور جوتے پاؤں سے اتر جاتے ہیں۔ مصاحبین آپ کو دوبارہ اپنی جگہ لے آتے اور چہرے پر سے ہیلی کاپٹر کی اڑائی گئی دهول صاف کرتے ہیں۔ کچه دیر بعد تیل کمپنی کا ایمبولینس آتا ہے ۔ ناطق نوری اور آقا احمد ، امام (ره) کے ساته اس میں سوار ہو جاتے ہیں اور ایمبولینس شاہراہ قم کی جانب روانہ ہو جاتا ہے ۔ ہیلی کاپٹر بهی اوپر اوپر سے ایمبولینس کا پیچها کرتے ہوئے ایک مناسب جگہ آکر اتر آتا ہے اور امام (ره) کو اس میں بٹهایا جاتا ہے ۔
ہیلی کاپٹر شہر کی فضا میں پہنچ چکا ہے۔ ہواباز کہتا ہے کہ آپ جہاں حکم دیں گے وہیں ہم اترجائیں گے۔ امام (ره) کی طبیعت ٹهیک نہیں ہے ؛ لہٰذا ہسپتال کا رخ کرتا ہے اور وہاں پر امام (ره) کو اتارا جاتا ہے۔ ایمبولینس کا بندوبست نہیں ہے اس لئے آپ (ره) کو ہسپتال کے کسی ڈاکٹر کی گاڑی کے ذریعے کشاورز بلیوارڈ کے اختتام تک لے جایا جاتا ہے ۔ ناطق نوری کی گاڑی صبح سے وہیں کهڑی تهی ، سب اس میں بیٹه گئے۔
سب سوچ رہے تهے کہ امام (ره)، بہشت زہرا (ره) سے سیدهے مدرسہ رفاہ جائیں گے؛ لیکن آپ (ره) نہیں گئے۔ امام (ره) نے کشاورز بلیوارڈ پہنچ کر اپنے ارادے سے آگاہ کیا کہ میں اپنی بهتیجی ( آقائے پسندیدہ کی بیٹی ) کے گهر جانا چاہتا ہوں؛ ان کا گهر شاہراہ شمیران ( حالیہ شریعتی) کے نزدیک تها۔
رات کے آخری پہر میں امام (ره)، آقائے احمد کے ساته مدرسہ رفاہ واپس آگئے۔ یہ مدرسہ آقائے بہشتی، باہنر اور رجائی نے انقلاب سے تقریبا ۱۰ سال پہلے ایران کی سڑکوں پر بنوایا تها جو پرائمری اور مڈل کلاسوں پر مشتمل تها۔ ایران واپسی کے ابتدائی چند روز امام (ره) اسی مدرسے میں مقیم ہوئے پهر یہاں پر جگه کی تنگی کے باعث مدرسہ علوی چلے گئے۔ امام (ره) کے قم اور پهر جماران جانے سے پہلے مدرسہ علوی ہی آپ کی قیام گاہ تها۔