مسلمان ممالک شیطان بزرگ امریکہ کے زیر اثر، جبکہ کچھ سووویت یونین کے زیر اثر جا چکے تھے، بظاہر وہ سمجھتے تھے کہ جہان اسلام اپنی موت مر چکا ہے، اس دوران انقلاب اسلامی ایران کی صورت میں ایک عظیم انقلاب آیا۔ آج 37 سال گزرنے کے بعد دیکھیں کہ پوری دنیا میں یہ نہضت و تحریک جس کی رہبری امام خمینیؒ کر رہے تھے، آج بھی طاقتور حالت میں ہے۔
ممتاز عالم دین اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول اور کراچی میں حاصل کی اور دینی تعلیم جامعہ اہلبیت ؑ راولپنڈی سے حاصل کی۔ بعد ازاں اعلٰی دینی تعلیم کے حصول کیلئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے، جہاں عالم اسلام کے قابل فخر فقہا اور مجتہدین سے کسب فیض کیا۔ انیس برس قم میں حصول علم کے بعد 2002ء میں واپس پاکستان تشریف لے آئے اور اسلام آباد میں جامعہ ولایہ کے نام سے جدید ترین تعلیمی سہولیات سے آراستہ دینی درسگاہ کا قیام عمل میں لائے، جہاں طلباء دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی حاصل کرتے ہیں اور طلباء کا تعلیمی معیار ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ لیول تک ہے۔
ملت جعفریہ پاکستان میں موجود مایوسی، سیاسی و معاشرتی محرومیوں کے خاتمے اور مکتب اہل بیت ؑ کی قومی داخلہ و خارجہ پالیسی میں نمایاں نقش اور رول ادا کرنے کیلئے نو برس قبل مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے نام سے ملک گیر دینی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، جس نے انتہائی قلیل عرصے میں زبردست مقبولیت حاصل کی۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اتحاد و وحدت کے داعی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اہلسنت کیساتھ بھی بہترین تعلقات استوار کرکے اتحاد بین المسلمین کا عملی مظاہرہ کیا۔ اسکے علاوہ ملت جعفریہ کو بھی ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
اسلام ٹائمز: انتہاء پسندی و تکفیر پر مبنی بیانیہ نے کس طرح عالم اسلام کو نقصان پہنچایا ہے، نیز اسکا تدارک کیسے ممکن ہے اور کس طرح اس طبقے سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، جو اس بیانیہ پر عمل کرتا ہے؟
علامہ راجہ ناصر: ہمیشہ سے انتہاء پسند طبقے نے اسلام کا نام لے کر خود اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثال خوارج ہیں، جنہوں نے کلمۃ اللہ کے اجراء کے نام پر مسلمانوں اور اسلام کو انتہائی شدید نقصان پہنچایا۔ آج بھی جو انتہاء پسند طبقہ ہے، اس نے زبردستی اپنی مرضی اور رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کیلئے ایک تو تکفیر کا حربہ اپنایا، یعنی جو ان کی سوچ کو قبول نہیں کرتا، اس کی تکفیر کرتے ہیں، اسے کافر قرار دیتے ہیں اور جہاد کا مسخ شدہ نظریہ اپنا کر اپنے انہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرتے ہیں۔ لہذا ان کا یہ بیانیہ انتہاء پسندی کی بنیاد پر ہے، گمراہی کی بنیاد پر ہے، یہ اسلام کا بیانیہ نہیں ہےکہ ایک خدا کی پیروی کرنے والوں کو، ایک قرآن پڑھنے والوں کو، ایک قبلہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے والوں کو، ختم نبوت کے ماننے والوں کو کافر قرار دیں، پھر ان کے خلاف جہاد شروع کر دیں، یہ بیانیہ قرآن اور سنت کیخلاف ہے اور نواز شریف نے درست کہا ہےکہ اس بیانیہ کی بنیاد کے اوپر پوری دنیا میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے، مسلمان ممالک کو کمزور کیا جا رہا ہے، مسلم سوسائٹی کو کمزور کیا جا رہا ہے، اسے ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کی طاقت کو توڑا جا رہا ہے اور اس کا فائدہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو ہے، ایک تو یہ کہ اسلام کا تشخص برباد ہو رہا ہے، دوسرا یہ کہ مسلم معاشرے جو کمزور ہو رہے ہیں، تو اسلام دشمن قوتوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔
ہمیں اسلام کا وہ بیانیہ لوگوں کے سامنے لانا ہوگا، جو غدیر کا بیانیہ ہے، جو ہمارے نبی اکرم (ص) کا بیانیہ ہے، جو قرآن و سنت کا بیانیہ ہے، جس بیانیہ کی بنیاد کے اوپر مسلمان دنیا کے مختلف ممالک میں زندگی گزارتے ہیں، اسی بیانیہ کی بنیاد پر ہی پاک و ہند کے مسلمان اکٹھے ہوئے اور ایک آزاد ملک حاصل کیا، اگر اس انتہاء پسند بیانیہ کو قبول کیا جاتا تو برصغیر کے مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہوتے، ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہوتے اور کبھی بھی ایک مسلم ملک حاصل نہ کر پاتے، اس گمراہ کن انتہاء پسند بیانیہ کی بنیاد پر وہ پاکستان کو ایک مسلکی ملک بنانا چاہتے ہیں، پاکستان سے مسلم ملک ہونے کا تشخص چھیننا چاہتے ہیں، لہذا ان کے مقابل جو دین محمدی کا بیانیہ ہے، وہ یہ ہےکہ تمام شہادتین پڑھنے والے، قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھنے والے، اسلام کے بنیادی احکام پر ایمان رکھنے والے، قرآن کی تعلیمات رکھنے والے، یہ سارے مسلمان ہیں اور کسی انتہاء پسند طبقے کو حق حاصل نہیں کہ ان کے خلاف جہاد کا اعلان کرے اور ان کی تکفیر کرے، ہم ایک مسلم ریاست ہیں، ایک مسلم ریاست کے اندر کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ریاست کے اندر یا باہر جہاد کا اعلان کرے، لہذا یہ سارے کے سارے انتہاء پسند بیانیہ دین کے مقابلے میں ہیں، آج ہمیں اسی بیانیہ کی ضرورت ہے جو علامہ اقبال کا بیانیہ تھا، جو قائد اعظم کا بیانیہ تھا کہ جس کی بنیاد پر ہم نے ایک آزاد مسلم ملک حاصل کیا تھا اور اسی بیانیہ کی بنیاد پر ہی پاکستان آگے بڑھےگا اور سبز ہلالی پرچم لہراتا رہےگا۔
اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی، لبنان میں حزب اللہ کی نہضت کی صورت میں تشیع کی سربلندی، عراق، یمن و دیگر جگہوں پر تشیع کی نہضت و مقاومت ہم سب کے سامنے ہے، آپ موجودہ دور میں عالمی سطح پر تشیع کی تحریک و نہضت کو کس مقام پر دیکھ رہے ہیں؟
علامہ جعفری: غیبت کبریٰ کی ہماری جو جدوجہد ہے یا یہ کہ 260 ہجری کے بعد سے جو ہماری جدوجہد ہے، یہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی ہیں، انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد تشیع ایک نہضت اور تحریک کے عنوان سے بہت طاقتور ہوکر سامنے آئی ہے، یہ دنیا جس وقت تقسیم ہوکر شرق و غرب میں بٹ چکی تھی، کچھ مسلمان ممالک شیطان بزرگ امریکہ کے زیر اثر، جبکہ کچھ سووویت یونین کے زیر اثر جا چکے تھے، بظاہر وہ سمجھتے تھے کہ جہان اسلام اپنی موت مر چکا ہے، اس دوران انقلاب اسلامی ایران کی صورت میں ایک عظیم انقلاب آیا، جس کی رہبری ایک مرجع دین نے کی، یہ انقلاب ان باطل قوتوں کے خلاف تھا کہ جنہوں نے مسلم اقوام کو ٹکڑوں میں بانٹا ہوا تھا، اس انقلاب اسلامی سے عالمی استعماری و استکباری قوتوں کے ظلم و ستم کے شکار مظلوموں، محروموں اور مستضعفین لوگوں کو ایک امید و حوصلہ ملا کہ سوویت یونین اور امریکہ کے مقابلے میں قیام کیا جاسکتا ہے، ان کو بھی شکست دی جاسکتی ہے، اپنے حقوق کو حاصل کیا جاسکتا ہے، انقلاب لایا جاسکتا ہے، خود ایران عراق جنگ نے یہ پیغام دیا کہ اگر کوئی قوم چاہے تو اپنے حقوق کیلئے ظالموں کے ساتھ لڑ سکتی ہے، لہٰذا فلسطین میں جو مقاومت عرب قوم پرستی کی بنیاد پر چل رہی تھی، اس کو اسلامی، دینی اور خدائی رنگ مل گیا، اسی طرح سے جو صدام کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگ تھے، ان کو حوصلہ ملا، پوری دنیا میں لگ بھگ یہی صورتحال دیکھنے کو ملی۔
پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تشیع عالمی استکباری و استعماری قوتوں کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر آگئی اور ظلم و ظالم کے خلاف مبارزے کا پرچم مکتب تشیع کے ہاتھ میں آگیا، آج 37 سال گزرنے کے بعد دیکھیں کہ پوری دنیا میں یہ نہضت و تحریک جس کی رہبری امام خمینیؒ کر رہے تھے، آج بھی طاقتور حالت میں ہے۔
آج ایک جبہہ مقاومت وجود میں آچکا ہے، اس کے اندر دنیا کے مختلف ممالک ہیں، وہ بہت طاقتور ہے، انہوں نے لبنان میں صہیونی اسرائیل کو شکست دی ہے، اسرائیل جو نیل اور فرات کی باتیں کرتا تھا، آج اپنی سرحد کے گرد دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہے، اسلامی مقاومت نے غزہ میں اسرائیل کو شکست دی ہے، شام میں اس بلاک نے دہشتگرد تکفیری عناصر کو شکست دی ہے، جن کی سرپرستی امریکہ، اسرائیل اور دیگر کئی عرب ممالک کر رہے تھے، یمن میں آج یمنی عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کیلئے امریکی، اسرائیلی اور سعودی نفوذ کے خلاف دو سال سے زائد عرصہ ہوگیا مقابلہ کر رہے ہیں، ظلم کے ساتھ ٹکراؤ کی حالت میں ہیں، جو اس اسلامی مقاومت کی مخالف باطل قوتیں ہیں، آل سعود اور انکے ہمراہی، اس وقت زمیں بوس ہو رہے اور شکست کھا رہے ہیں، لہٰذا پوری دنیا کے اندر بیداری ہے۔
اس اسلامی تحریک اور اس انقلاب کے نتیجے میں الحمدللہ پاکستان میں بھی اس وقت شیعہ ایک آواز رکھتے ہیں، ایک طاقت رکھتے ہیں، دشمن نے پوری کوشش کی کہ ان کو تنہا کرے، ان کی تکفیر کرکے انہیں شہید کرے، انہیں قادیانیوں کی طرح معاشرے میں منفور بنا دے، ان پر حملے کرکے انہیں ڈرا کر گھروں میں بٹھا دے، لیکن اللہ کا شکر ہےکہ پاکستان میں بھی اس ظلم کے خلاف مقاومت موجود ہے، ظالموں کے سرپرستوں کے خلاف شیعہ بیدار ہیں، تشیع جتنی آج طاقتور ہے، گذشتہ چودہ سو سالوں میں کبھی نہیں تھی، مولا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی حکومت کے بعد آج تشیع جتنی طاقتور ہے، اتنی کبھی نہیں تھی، یہ وہ تشیع ہے جو ولائی ہے، جو انقلابی ہے، جو ظہور امام زمانہ عج کیلئے جدوجہد کر رہی ہے، جو اس کی زمینہ سازی کر رہی ہے، آج اس کے پاس سیاسی طاقت ہے، معاشی طاقت ہے، سماجی طاقت ہے، عسکری طاقت ہے، میڈیا کی طاقت ہے، تعلیم و تربیت کے عظیم مراکز اس کے پاس ہیں، لہٰذا انقلاب اسلامی کی بدولت تشیع جتنی آج طاقتور ہے، پہلے کبھی بھی نہیں رہی۔
اسلام ٹائمز: پاکستان کی تشیع کی اگر بات کریں تو آپ اس کو کہاں دیکھتے ہیں، خصوصاً انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے پاکستان میں اسکا کیا کردار ہے؟
علامہ جعفری: شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی قیادت سے پہلے پاکستانی تشیع کا عالمی تحریک سے اتنا خاص تعلق نہیں تھا، لیکن شہید قائد کے آنے کے بعد وہ بہت زیادہ عالمی تشیع کے قریب آگئی اور مکتب تشیع کے پیروکار بہت زیادہ تعداد میں انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے ساتھ منسلک ہوگئے، یہاں کے جوانوں اور یہاں کے عام لوگوں میں انقلاب کی وجہ سے امام خمینی سے محبت تھی، اس محبت کو ایک سمت مل گئی، جس کی وجہ سے پاکستان کے لوگ بھی تشیع کی عالمی اسلامی تحریک و نہضت کا حصہ بن گئے، شہید قائد نے پاکستان میں عظیم اسلامی تحریک چلائی، جس سے خوفزدہ ہوکر دشمن نے یہ باور کر لیا کہ جمہوری اسلامی ایران کے بعد پاکستان میں شیعوں کی دوسری بڑی اکثریت پائی جاتی ہے، وہ خوفزدہ تھے کہ ایسی قیادت جو شہید قائد کی شکل میں ہے، انتہائی بہادر، شجاع، بابصیرت، مخلص، الٰہی قیادت اگر پاکستان میں موجود رہی تو پاکستان بھی لبنان اور ایران کی طرح عالمی استکبار کے ہاتھوں سے نکل جائےگا، لہذا عالمی استکباری قوتوں نے انہیں شہید کرا دیا، یہ سوچ کر کہ ان کو مار دینے سے یہ تحریک و نہضت مر جائےگی، لیکن شہید قائد نے جس اخلاص کے ساتھ پاکستان کی سرزمین پر مظلوموں کے پاک دلوں میں اس تحریک کے جو بیج کاشت کئے تھے، وہ نہیں ختم ہوئے، وہ زمین بنجر نہیں ہوئی۔
شہید کا راستہ آج بھی ہمارے سامنے زندہ ہے، شہید قائد کے معنوی فرزندوں نے پھر وہ پرچم اٹھایا اور ظالموں کو للکارا اور اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا، دشمن جو چاہتا تھا اسے نہیں کرنے دیا گیا، دشمن سمجھتا تھا کہ شہید کی شہادت سے یہ قوم مر جائےگی، آج اس قوم کے بہادر سپوت اس کے مقابلے میں میدان عمل میں حاضر ہیں، انہوں نے گذشتہ چند سالوں میں عظیم جدوجہد کی ہے، پاراچنار کا محاصرہ ٹوٹا ان کی جدوجہد کے نتیجے میں، اسی طرح سے بلوچستان سے ایک ظالم حکومت کا خاتمہ کیا، ظلم و ستم کے خلاف بولنا، خط ولایت اور خط شہید کو زندہ رکھنا اور نوجوان نسل میں منتقل کرنا، اب یہ سلسلہ پھر جاری ہوگیا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان میں آج جو شیعی تحریک ہے، وہ دن بدن بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے، آج ان کی آواز کو کوئی نہیں دبا سکتا۔
عاشورا محرم اور اربعین جو ہماری شناخت کے دن ہیں، دشمن چاہتا تھا کہ یہ ہم سے چھین لے، قوم نے نہیں چھیننے دیا، آج پاکستان میں شیعہ قوم پہلے کی نسبت دوبارہ سے اسی راستے پر چل نکلی ہے، جس راستے پر شہید قائد اس قوم کو آگے لیکر جا رہے تھے، یہ قافلہ رواں دواں رہےگا اور پاکستان کی سرزمین پر اس زمانے کے امام (عج) کے ظہور کی زمینہ سازی کرتا ہوا آگے بڑھتا رہےگا۔
اسلام ٹائمز: شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے کن کن امور کو ترجیحی بنیاد پر رکھا اور آج شہید کی روش کو زندہ رکھتے ہوئے کن امور کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے؟
علامہ جعفری: جیسے میں نے پہلے اشارہ کیا کہ شہید قائد نے امام خمینی کے انقلابی تفکر کو لوگوں تک پہنچایا اور لوگوں کو اس انقلابی تفکر کے ساتھ جوڑا، ظلم ستیزی کو رواج دیا، لیکن منظم شکل میں، مظلوموں کی حمایت کیلئے آواز اٹھائی منظم شکل میں، اخلاص، پاکیزگی، طہارت، قرآن کی تلاوت کو، نماز تہجد کو، دعاؤں اور مناجات کو، معنویت اور روحانیت کو رواج دیا، شہید قائد کی تحریک تزکیہ نفس کی تحریک تھی، شہید قائد کی بدولت ہمارے نوجوان قرآن کے قریب ہونا شروع ہوگئے، راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے بن گئے، دعائے کمیل نے رواج پایا، مناجات نے رواج پایا، خدائی رنگ لوگوں کے اندر گہرا ہونا شروع ہوگیا۔ شہید قائد کےلئے دشمن نے اندرونی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور ان کے مقابلے میں ایک متبادل قیادت دی گئی تھی، شہید قائد نے چند سالوں کے اندر اندرونی رکاوٹوں کو عبور کیا اور مینار پاکستان میں قرآن و سنت کانفرنس منعقد کی، وہاں پھر اگلا مرحلہ قوم کو دیا کہ اس کے بعد ہم پاکستان کی سیاست میں دخالت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری چند ذمہ داریاں ہیں، ایک انسان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے، پاکستانی ہونے کے ناطے سے ہماری ذمہ داری ہے اور ایک شیعہ مسلمان ہونے کے ناطے سے ہماری ذمہ داری ہے، ہم ہر حوالے سے پاکستان میں اپنے فرائض کو انجام دیں گے اور پاکستان کے شیعہ سیاسی عمل دخالت سے پاکستان میں کنارہ کش نہیں رہیں گے، باقاعدہ اس ملک کے اندر ایک سیاسی رول پلے کریں گے، ہمارے پاس وہ سیاسی افکار و اصول ہیں، جو اس معاشرے کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔
انہوں نے شیعہ سنی اتحاد کیلئے کام کیا، معاشرے کے اندر وحدت کے فروغ کیلئے کام کیا، شیعوں کے اتحاد کیلئے کام کیا، سب سے اہم اعلان جو شہید نے کیا کہ اس ملک کے سیاسی معاملات سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ دشمن نے ان کو جلد ہی راستے سے ہٹا دیا، کیونکہ شاید وہ یہ سمجھتا تھا کہ جو شخصیت اتنی جاذب ہے، شیعہ و سنی کو لے کر چل سکتی ہے، تمام مظلوموں کی مدد کرسکتی، جوانوں کو جذب کر رہی ہے، جس کا خدا کے ساتھ گہرا تعلق ہے، یہ اگر زندہ رہا اور اگر بڑھتا رہا تو پاکستان جو تیسری دنیا کا ایک اہم اسلامی ملک ہے، ان کے ہاتھ سے نکل جائےگا، دشمن سمجھتا تھا کہ افراد کو مارنے سے نظریہ بھی مر جاتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
آج پاکستان کی سرزمین پر شہید قائد کے معنوی فرزندوں کا میدان میں مختلف شکلوں میں حاضر رہنا، اس بات کی دلیل ہےکہ شہید کا شجرہ طیبہ سرسبز و شاداب ہے، اس کے نتائج ان شاء اللہ اس قوم کو ضرور ملیں گے۔