وہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی و قبائلی علاقے پاراچنار کی افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ میں سید فضل حسین الحسینی کے انتہائی نجیب و شریف خاندان کے گھر میں پیدا ہوئے۔
میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے، ان کی دست بوسی کی سعادت بھی حاصل ہے، ان کی گفتگو بھی سامنے دوزانو ہو کر سنی ہے، انہیں مینار پاکستان کے تاریخی جلسہ گاہ میں بھی باطل کو للکارتے ہوئے سنا ہے، انہیں دعائے کمیل کے خدا سے راز و نیاز اور قربت الٰہی کے حصول کے لمحات میں بھی دیکھا ہے، انہیں مہمانوں کی تواضع و انکساری و عاجزی کے ساتھ انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے بھی دیکھا ہے، انہیں سادہ غذا سے تناول ماحاضر کی محفل میں بھی دیکھا ہے، انہیں اپنے ہاتھوں سے پیش کردہ چائے کی پیالی نوش کرتے پر لطف انداز میں بھی دیکھا ہے ، انہیں اپنے نام کے نعرے لگنے پر مسجد میں اعتراض کرتے بھی دیکھا ہے، انہیں نوجوانوں کے سوالوں کے جواب دیتے اور رہنمائی کرتے بھی دیکھا ہے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر خوشبو کا کوئی وجود ہوتا تو میں یہی کہتا کہ میں نے عارف حسین الحسینی کی شکل میں اسے دیکھا ہے۔۔ اگر کشش و جاذبہ کی کوئی مورت ہوتی تو میں یہی کہتا کہ وہ مورت عارف حسین الحسینی کی ہی تھی۔۔ اگر تقویٰ، اخلاص، سادہ زیستی کی کوئی صورت و تصویر مانگتا تو میں انہی کی تصویر کو پیش کر دیتا۔۔ اور اگر آج ستائیس برس گذر جانے کے بعد بھی ولایت فقیہ، امام خمینی، انقلاب اسلامی کا کوئی حقیقی عاشق، پیرو، جانثار کا پتہ پوچھتا تو میں اسے پیواڑ میں آرام فرما اس مرد قلندر کے شکستہ مزار پہ لے جاتا۔ تو اس کی زبان پر بے ساختہ یہی مصرعہ سنائی دیتا۔۔
تم پہ میرے وطن کے خمینی سلام ہو
5 اگست 1988ء کی دمِ فجر تھی، جمعہ کا دن تھا، پشاور کے جی ٹی روڑ پر واقع جامعہ معارف الاسلامیہ میں ایک فائر ہوا، یہ ایک فائر ایک ملت کو یتیم کر گیا، ایک قوم کو بے آسرا کر گیا، ایک ملک میں قیادت کا نا ختم ہونے والا قحط پیدا کر گیا۔ دین خدا کے ماننے والوں سے ایک بلند پایہ دینی سیاستدان کو چھین گیا، روحانیت و معنویت کے متلاشیوں کو بھٹکتا ہوا چھوڑ گیا، شعور و فکر کے ارتقاء و بلندی کے خواہش مندوں کو اندھیری راہوں میں چھوڑ گیا۔ پاکستان کے نقشے پر استعمار کے حقیقی مخالف ایک عالم دین کے پاکباز خون کے انمٹ نقوش چھوڑ گیا، امید انقلاب کی روشن شمع کو آندھیوں میں جلتا ہو چھوڑ گیا، یہ گولی کس نے اور کیوں چلائی اور اس ایک فائر سے کون قتل ہوا۔۔ اور کیوں قتل کیا گیا ؟ قائد مظلوم علامہ سید عارف حسین الحسینی کو نماز فجر کی تیاری کے وقت ان کے پشاور میں واقع مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ کی بالائی منزل کی سیڑھیوں میں اس وقت شہید کیا گیا جب آپ پہلی منزل پر واقع وضو گاہ سے نیچے اتر رہے تھے، جمیل اللہ نامی قاتل نے ایک فائر کیا جو علامہ سید عارف حسین الحسینی کے دل میں پیوست ہو گیا، اور ان کی المناک شہادت کا سبب بن گیا۔ بعد میں سامنے آنے والے حقائق سے معلوم ہوا کہ اس قاتل کا انتخاب اس لیئے کیاگیا تھا کہ وہ پسٹل سے نشانہ لینے کا ماہر تھا مگریہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جمیل اللہ نے عدالت کے روبرو اقرار کیا کہ اس سے دوسرا فائر اس لیئے نہ ہوا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھ سے وقت کا پیغمبر قتل ہو گیا ہے، پہلا فائر میں نے ان کے چہرے کو دیکھے بغیر کیا تھا، جب ان کا چہرہ سامنے آیا تو اس کے بعد ہاتھ کو ایسا لگا جیسے شل ہو گیا ہے۔ مجھ میں دوسرا فائر کرنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔
آج اس بات کو ستائیس برس بیت رہے ہیں، یہ ستائیس برس دراصل ہماری ملی یتیمی کا عرصہ ہے ہم نے یہ تمام عرصہ اپنے محبوب قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کے افکار و کردار اور چھوڑے ہوئے نقوش کی روشنی میں ان کے کارروان کو آگے بڑھانے میں گذارا ہے مگر خدا گواہ ہے کہ ایک دن بھی ان کی یاد سے غافل نہیں ہوئے، ان کے رستے کو نہیں بھولے ان کی بتائی ہوئی منزل کو پانے کی جدوجہد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں مڑے۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ شخصیات کو دیکھنا، پرکھنا اور جاننا ہو تو ان کے نظریات کو دیکھا جاتا ہے، افکار کو تولا جاتا ہے، کردار کو پڑھا جاتا ہے، خدمات کو جانچا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی ہم شہید کو ایک کامل رہنما کے طور پر دیکھ سکتے ہیں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی ابتدائی زندگی جو پاراچنار میں گذری اس کے بارے ان کے بچپن کے رفقاء سے پوچھیں تو ان کے زہد و تقویٰ کے معترف نظر آتے ہیں، اگر پاراچنار سے نجف کا زمانہ جب آپ دین کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے وہاں 1967ء میں تشریف لے گئے اس دور کے ساتھیوں سے احوال پوچھیں تو ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ علامہ سید عارف حسین الحسینی ایک خالص عبد خدا اور دین کی تعلیم میں گہری دلچسپی کے ساتھ اس دور میں جب امام خمینی ایران سے جلا وطن ہو کر عراق تشریف لے گئے تھے ان کی انقلابی تحریک کا حصہ ہوتے تھے اور اکثر و بیشتر نماز امام خمینی کی اقتدا میں ادا کرتے، انہیں امام خمینی کی ذات سے جنوں کی حد تک عشق ہو گیا تھا جسے وہ کسی بھی طرح چھپا نہ سکتے تھے حالانکہ عراق میں وہ ایک عام طالب علم تھے جو کئی مسائل سے دوچار رہتے ہیں اور اس قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث ملک بدر بھی ہو سکتے تھے مگر آپ نے اس کی پرواہ نہ کی۔ نجف و قم میں دینی علوم حاصل کرنے کے بعد وہ جب پاکستان تشریف لائے تو ان کے پاس امام خمینی کا وکالت نامہ و نمائندگی کا خصوصی خط تھا جسے بارڈر حکام نے پکڑ بھی لیا۔
شہید قائد کو آپ پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے بانی اور سرخیل کہہ سکتے ہیں علامہ سید عارف حسین الحسینی نے اپنے دور قیادت میں مسلم امہ کے اتحاد و وحدت کیلئے بھرپور کاوشیں کیں اور مختلف فرقوں کے ماننے والوں کو اسلام کے نام اور مشترکات پر جمع ہونے کی دعوت دی ۔وہ ہمیشہ اپنے ہمراہ کسی نہ کسی اہل سنت عالم دین کو دورہ جات میں ساتھ رکھتے تھے، ان کا اتحاد و وحدت امہ پر موقف بہت دوٹوک ہوتا تھا اور ان کے اس موقف کی بدولت یہ امید ہونے لگی تھی کہ دینی جماعتیں ملک کو بدترین آمریت سے نکالنے کیلئے اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے عملی نفاذ کیلئے مل بیٹھتیں،ضیا ء الحق کے نام نہاد شریعت بل کو علامہ احسان الٰہی ظہیر جو اس دور میں اہلحدیث مکتب کی معروف قیادت تھے وہ بھی شہید عارف الحسینی کے موقف کے ساتھ تھے۔ وہ فکر امام خمینی کے خالص اور سچے پیرو تھے اسی لیئے شہید عارف حسین الحسینی پاکستان کو عالمی استعمار کے چنگل سے آزادی دلوانا چاہتے تھے انہوں نے اپنے ہر خطاب اور گفتگو میں اس حوالے سے عوام اور نوجوانوں کو معلومات سے نوازا اور ان کے افکار و شعور میں یہ بات بٹھا دی کہ جب تک ہم اس ملک کو استعمار اور مغرب سے آزاد نہیں کروا لیتے اور اپنے مقدر کے فیصلے اپنے ایوانوں میں نہیں کرتے ہم ترقی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک جگہ فرمایا کہ "تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ملک میں نظام اسلام کے قیام کیلئے اکٹھے ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بے شمار قربانیوں کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی 40برس گزر جانے پر بھی کہیں محسوس نہیں ہوتی، سامراجی آقاؤں سے حاصل ہونیوالی آزادی کے باوجود ان کے چھوڑے ہوئے نظام کی بدولت آزادی کے احساس سے ہم آج بھی محروم ہیں"۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے ان کی شہادت پر ایک اعلیٰ وفد آیۃ اللہ جنتی کی قیادت میں پاکستان بھیجا جنہوں نے ان کا جنازہ پڑھایا اور امام خمینی نے اس حوالے سے تاریخی تعزیتی پیغام بھی جاری کیا، جس میں انہوں نے فرمایا کہ میں آج اپنے عزیز فرزند سے محروم ہو گیا ہوں اور پاکستان کے عوام کو تاکید کی کہ وہ علامہ عارف حسین الحسینی کے افکار کو زندہ رکھیں۔ شہید کے افکار کو سمجھنے کیلئے شہید کے افکار، سیاسی، دینی،تنظیمی، مجالس عزا، اور دیگر موضوعات پر العارف اکیڈمی نے کئی کتب شائع کی ہیں جنہیں پڑھے بغیر کوئی بھی شائد ان افکار زندہ کو سمجھنے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
http://www.urdu.shiitenews.org