آیت اللہ شیخ محمد فاضل لنکرانی، امام خمینی (رہ) کی شخصیت اور ولایت فقیہ

آیت اللہ شیخ محمد فاضل لنکرانی، امام خمینی (رہ) کی شخصیت اور ولایت فقیہ

حضرت امام خمینی(رہ) عصر حاضر میں بہت اہم سیاسی ابعاد کے حامل ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام خمینی(رہ) عصر حاضر میں بہت اہم سیاسی ابعاد کے حامل ہیں ۔ آپ کی شخصیت ایک معنوی اور الٰہی شخصیت تهی۔ جب ہم اس عظیم شخصیت کی زندگی کے اندر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام کا الٰہی اور للٰہی جلوہ اس قدر درخشاں ہے جو آپ کی شخصیت کو بے نظیر بنا دیتا ہے کہ ہر کوئی آپ کا احترام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب ہم انسانی سماج کے اندر نگاہ کرتے ہیں وہ لوگ جو کسی حد تک معنوی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں تو سماج میں ان کا احترام کیا جا تا ہے چہ جائے کہ امام کی شخصیت کہ جو معنوی لحاظ سے، تقوی اور پرہیزگاری کے حوالے سے ،عدالت اور شرافت کے اعتبار سے بلند مقام کی حامل تهی۔

ہم اگرامام کے مسئلہ رہبری اور مرجعیت کو ایک طرف اورانکے معنوی پہلو کو دوسری طرف قرار دیں تو امام کا معنوی پہلو زیادہ بهاری نظر آتا ہے۔ ہم معتقد ہیں وہ تمام برکات کہ جو انقلاب اسلامی کو نصیب ہوئیں یہ عظیم انقلاب کی نعمت کہ جو خداوند عالم نے اس قوم کو عنایت کی امام کےاس معنوی پہلوکے وجہ سے تهی ۔ میری سمجه میں نہیں آتا کہ کیسے ایک معمولی انسان اتنی جرأت پیدا کر لیتا ہے کہ امام کے فوٹوکی توہین کرے۔ مگر یہ کہ بہت پست ذہنیت کا مالک اور پست کردار کا حامل ہو۔ میں مطمئن ہوں ایران کی عزیز قوم و ملت کے درمیان کہ جو امام سے بے پناہ عشق و محبت رکهتی ہے کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوگا جو ایسی جسارت کرے۔ یہ دشمنوں کا آلودہ ہاته ہے کہ جو اس خام خیالی میں مبتلیٰ ہیں کہ انقلاب اسلامی میں رخنہ اندازی کریں گے اور لوگوں کے اندر اختلاف ایجاد کریں گے۔

امام خمینی (رہ) کے معنوی پہلو سے قطع نظر کرتے ہوئے بهی امام کا بہت زیادہ حق ہے ایرانی قوم و ملت پر ایرانی تاریخ پر بلکہ بشریت اور دین پر یعنی اگر ہم ادیان کے ظہور کی تاریخ کا مطالعہ کریں دیکهیں گے عصر امام خمینی (رہ) دین اسلام کے لیے ایک ظہور مجدد کا زمانہ ہے۔ وہ اسلام جس کا اسی ملک میں کوئی اثر باقی نہیں رہ گیا تها۔ استکبار اور استعمار یہ سوچ رہا تها کہ اسلام کی شمع گل ہو چکی ہے۔ لیکن اس مرد عظیم نے اسلام کو دوبارا انسانی زندگی میں جگہ دی اور قوم و ملت میں مقام عطا کیا۔ یعنی یہ شخصیت دین پر بهی حق رکهتی ہے بشریت پر بهی حق رکهتی ہےاور تاریخ ایران پر بهی۔ اگر ہم چاہیں کہ ان حقوق کو جو اس شخصیت کے ہمارے اوپر ہیں شمار کریں شمار نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس شخصیت کی اہانت کرنا دین کی اہانت ہے ایرانی قوم کی اہانت ہے کل بشریت کی اہانت ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ جب ہماری قوم نے اس ناگوار خبر کو سنا کس طریقے سے اس کا عکس العمل دکهایا۔ عوام کے لیے یہ مہم نہیں ہے کہ کس نے یہ توہین کی کس نے یہ برا فعل انجام دیا۔

 خود یہ عمل ان کے لیے بہت ناگوار تها۔ البتہ اس بات میں شک نہیں ہے کہ جس نے اس کام کو انجام دیا یقینا ایک برنامہ ریزی اور پلاننگ کے تحت انجام دیا۔ اور یہ ایک ایسا پروپگنڈہ ہے کہ جو مغرب کی طرف سے رچایا گیا ہے۔ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر امام کا فوٹو پهاڑ دیا گیا امام کے فوٹو کی اہانت کی گئی تو امام کی عظمت لوگوں کے درمیان کم ہو جائے گی۔ حالانکہ ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے۔ امام ہمارے دلوں میں اور ایرانی قوم کے دلوں میں بلکہ تمام پاک اور آزاد منش رکهنے والے لوگوں کے دلوں میں رسوخ کر چکے ہیں ۔ امام کی اہانت کرنا تمام شہداء کے خون کی اہانت ہے۔ اس انقلاب اسلامی کے شہداء کی اہانت ہے۔ ہم ان ایام میں دیکه رہے ہیں کہ دشمن نے چند کاموں کو اپنے پروپگنڈے کا محور قرار دیا ہے ان میں ایک یہی امام کی شان میں گستاخی تهی۔ ہمارا وظیفہ ہے کہ ہم امام کی شخصیت کی حفاظت کریں۔ اور اجازت نہ دیں دشمن اس طریقے سے ہمارے اندر داخل ہو۔

ہم اس ناقابل برداشت فعل کو محکوم کرتے ہیں چاہے جس نے بهی انجام دیا ہو اور عوام الناس اور سماج کے سرکردہ افراد کے شکر گذار ہیں کہ جنہوں نے اپنے تظاہرات سے رہبر معظم انقلاب کے ساته تجدید بیعت کی۔ امید ہے کہ خدا اس انقلاب کی حفاظت کرے اور ہم اپنے شہداء کے مقروض نہ رہیں۔

ایک نکتہ جو رہبر معظم نے ان آخری ایام میں بیان کیا ہے اور اس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے وہ بعض خاص لوگوں کا مسئلہ ہے کہ جن کی ایک خاص ذمہ داری ہے ۔ واضح ہے کہ سماج کے اندر جتنی بهی اس طرح کی زشت حرکتیں وجود پاتی ہیں ان کے پیچهے کچه خاص لوگوں کا ہاته ہوتا ہے۔ خواص ہمارے سماج میں روحانی،اساتید دانشگاہ، سیاسی اور علمی شخصیات ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو سماج کے اندر اثر و رسوخ رکهتے ہیں۔ ہم نے تاریخ کے آئینہ میں دیکها ہے کہ جب بهی خواص نے اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا اور اپنے آپ کو سیاست سے کنارہ کش سمجهتے رہے اور فقط دین پر عمل کرنے کے پابند رہے نتجہ اچها نہیں ہوا۔ آپ دیکهتے ہیں کہ امام نے جب ۴۱ یا ۴۲ میں آواز بلند کی اکیلے تهے۔ اور یہ بهی نہیں جانتے تهے کہ حوزہ کی شخصیات کس حد تک امام کا ساته دیں گی۔ لیکن آپ نے اپنے شرعی وظیفہ پر عمل کیا اور خدا نے بهی ان کی مدد کی ان تنصر اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم۔ خواص کو حکومت دینی کے سلسلے میں یہ جاننا چاہیے کہ فتنہ و فساد کے مقابلہ میں کیسی رفتار رکهیں۔ اور کیا کریں کہ لوگ اپنے اصلی راستے سے منحرف نہ ہوں ہماری مراد خواص سے صرف سیاسی گروہ نہیں ہیں کہ سیاسی افراد آئیں اور سیاسی مسائل لوگوں کو سمجهائیں ہماری حکومت چونکہ ایک دینی حکومت ہے ہمارے سماج کے خواص کو چاہیے کہ ایسے ملاک اور معیار پیش کریں کہ جو دین کے اندر پائے جاتے ہوں جسیےحق حاکمیت، حق الناس۔ ان لوگوں کا حق کہ جن کے طفیل یہ حکومت قائم و دائم ہے۔ بعض لوگ جو دیوانوں کی طرح فکر کرتے ہیں کہ اس نظام کو بدل کر ان کے لیے آزادی کی فضا ہموار ہو جائے گی کہ وہ اپنے افکار و نظریات کو دنیا والوں تک پہنچا سکیں گے، یہ غلط فکر کر رہے ہیں۔ یہ فکر احمقوں والی فکر ہے اور انشاءاللہ وہ اسی فکر کے دائرے میں محدود رہیں گے۔ ہمارے سماج میں جو بهی گروہ رشد اور ترقی کرنا چاہتا ہے اسلامی نظام کے سائے میں رہ کرترقی کرے البتہ ہمارے سماج میں انتقادی مسائل میں بہترین علمی اور قوی بحثیں ہوتی ہیں اور ہونا چاہیے لیکن نظام کی مخالفت در حقیقت خود اپنی مخالفت ہے۔

ہمیں موقع نہیں دینا چاہیے کہ دشمن یہ خیال کرے کہ ایران میں ایک گروہ ،ولو بہت مختصر، اسلامی نظام کو بدلنا چاہتا ہے۔ یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ انقلاب میں خیانت ہے دین میں خیانت ہے حتی خود اپنی نسبت خیانت ہے۔ یہ خیال نہ کریں کہ ایسی فضا فراہم کریں گے کہ اپنے اهداف کو پہنچیں گے میں گزارش کروں گا تمام گروہوں اورپارٹیوں سے کہ آئیں امام کی ان فرمائشات کے اوپر توجہ کریں کہ جو انہوں نے انقلاب کے پہلے دنوں میں بیان کی ہیں۔ امام نے دو اہم محور بیان کئے تهے ایک اسلام اور دوسرا وحدت۔

امام نے اپنی ایک تقریر میں اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تها کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے یہ انقلاب کا مسئلہ ہے جو بهی ایسی حرکت کرے کہ جس سے اسلام کی حرمت پر چهوٹا سا دهبہ پڑے اسے سوچنا چاہیۓ کہ اس نے کیا کیا ہے اور وہ کہاں جائے گا۔

امام اپنی تمام تقاریر کے اندر وحدت پر تاکید کرتے ہیں۔ میں اس فتنہ پرور گروہ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ اگر تم لوگ اپنے کاموں سے باز نہیں آؤ گے تو سماج کی وحدت پامال ہو جائے گی۔ وہ سماج جس میں وحدت نہ ہواس میں نہ تم کام کر پاؤ گے نہ کو ئی دوسرا۔ تمام پارٹیوں سے میری گزارش ہے کہ ان دو بنیادی اصول کو ہمیشہ مدنظر رکهیں۔ اسلام اور وحدت۔

امید کرتا ہوں کہ یہ تمام مشکلات آپس میں بحث و مباحثہ سے حل ہوجائیں گی اور ہم ملت ایران کے اندر ترقی اور پیشرفت کا مشاہدہ کریں گے۔

والسلام علیکم۔

ای میل کریں