رہبر

رہبر

رہبر انقلاب اور آپ کے فکری شاگردوں نے دین کی حقیقی تصویر پیش کرنے اور انقلاب اور دینی فکر کی احیاء میں اہم کردار ادا کیا ہے

رہبر ، انقلاب کا مفکر ہوتا ہے، اس کی شخصیت وخصوصیات اور اس کے کلام کا نفوذ، عوام کی وفاداری کے حصول اہم اسباب ہیں۔ اسلام کی سیاسی فکر کے مبانی میں وجود قیادت کی ضرورت ناقابل انکار امر ہے۔ حکومت اور قیادت ایسی ضرورتیں ہیں جن سے صرف نظر ممکن نہیں ہے، جائز روش کے ذریعہ استفادے کے موانع کو برطرف کرنا اور اسلامی مفاہیم کے قالب میں مبارزات کو آگے بڑھانا معاشرے کے افراد کیلئے قابل درک ہے۔

انقلاب ایران کے قائد کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کا انقلاب ومبارزت، دین ومعنویت کے اصولوں پر مبنی تھی اور فرض پر عمل ایک حاکم اصول کے عنوان سے اصالت رکھتا تھا، رہبری کی قدرت خدا پر توکل اور عوام کی عمیق قبولیت پر استوار تھی، سیاست ودین کی جدائی کے افسانہ کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنا قیادت کی دوسری خصوصیت تھی جس نے مخالفت کو اصل محور یعنی شاہ کی طرف مرکوز کردیا تھا، رہبری کے مخاطبین خاص گروہ وجماعتیں نہ تھیں بلکہ انقلابی مسلمان عوام تھے، حضرت امام خمینی  (ره)نے اوائل انقلاب کے ایام ۱۳۴۲ھ ش (۱۹۶۳ء) ہی سے امریکہ واسرائیل کو اسلامی معاشرے کی بدبختی کا سبب شمار کیا اور تحریک کی کامیابی تک اس پر زور دیتے رہے، انقلاب سے قبل کی تحریکیں جیسے آئینی تحریک اور تیل کے قومیائے جانے کی کے مقابل ۱۳۵۷ ھ ش (۱۹۷۸ء) کے انقلاب اسلامی کا امتیاز یہ تھا کہ اس انقلاب کا قائد ایک فقیہ ومرجع تھا۔

رہبر انقلاب اور آپ کے فکری شاگردوں نے دین کی حقیقی تصویر پیش کرنے اور انقلاب اور دینی فکر کی احیاء میں اہم کردار ادا کیا ہے، قائد انقلاب نے انقلاب بر پا کرنے، آئیڈیالوجی اور اقدار کے حاکم نظام کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ اکثر ایسے دینی مفاہیم پر نظر ثانی کی گئی جن سے شاہی حکومت سوء استفادہ کرتی تھی۔ اسی طرح رہبر نے ان تمام اجتماعی وسماجی موانع کو جو انقلابی تحریک کی پیشرفت کے سد راہ ہوسکتے تھے، راستے سے ہٹا دیا اور اسی ہدف کے پیش نظر تحریک کے ابتدائی زمانے میں انقلاب کو آگے بڑھانے کیلئے تقیہ کے عدم جواز کا حکم صادر کیا، قیادت کے دوسرے اہم کارنامے، عوام میں خود اعتمادی کا پیدا کرنا اور احساس کمتری کو ختم کرنا تھا۔

انقلاب ایران کے قائد کا علماء سے عمیق رابطہ، دنیا کے مختلف ممالک میں ایک وسیع چینل کی شکل اختیار کرلیا تھا جو آپ کے افکار ونظریات کی ترویج کررہے تھے اور ایران میں ایک سیاسی جماعت کے مانند انقلاب کو منزل مقصود سے ہمکنار کررہے تھے حالانکہ ظاہری طورسے ایک جماعت کی خصوصیات سے عاری تھے، ایرانی تاریخ کے گزشتہ سو سال تجربے، سماجی حالات میں علماء اور دینی دانشوروں کے کردار کو اجاگر کرتے ہیں اسلامی مفاہیم ومعارف کے قالب میں رہبر کے بیانات کے ذریعہ عظیم امواج کا پیدا ہونا اور عوام کا جان ومال کی پرواہ کئے بغیر شاہ کے خلاف مظاہرے کرنا، ان کے علمی وفکری محتویٰ وماہیت کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت مام خمینی  (ره) اپنے اکثر پیغامات میں جس امر واصل پر توجہ اور اصرار فرماتے تھے، کلمہ حق کی سربلندی اور دینی مبانی کا استحکام تھا، جسے شاہی حکومت نابود اور صفحہ ہستی سے محو کرنا چاہتی تھی۔

تحریک کی تشکیل میں رہبر کے موقف پر نگاہ کرتے ہوئے مشاہدہ ہوتا ہے کہ ایالتی اور ولایتی انجمن کے بل پر اعتراض ومخالفت کرنے والے پہلے فرد حضرت امام خمینی  (ره) تھے، اس بل میں اسلام اور قرآن کریم کے حلف کی قید ختم کردی گئی تھی۔

۱۳۴۲  ھ ش (۱۹۶۳ء) میں مدرسہ فیضیہ کا المناک واقعہ اور ۱۵ خرداد کا قیام جو کثیر افراد کے شہید وزخمی ہونے کا سبب بنا، شاہ کی اسلام مخالف پالیسی کے مقابل قیادت کے ردعمل کا نتیجہ تھا، ۱۳۵۶ ھ ش (۱۹۷۷ء) حضرت امام خمینی  (ره) کے فرزند کی شہادت، انقلاب ایران کی تاریخ کا اہم موڑ شمار ہوتا ہے جو ۱۳۵۷ ھ ش میں شاہی نظام کی سرنگونی کا باعث بنا۔

ای میل کریں