علما

علما کو فکری اور سیاسی اجارہ داری سے منع کرنا

حکومتی اسلام کے برخلاف اسلامی حکومت میں شریعت اسلامی کے مقرر کردہ حدود میں فکر واظہار کی آزادی ہے

امام خمینی  (ره)نے جہاں  روشن خیالوں  اور یورپ سے تعلیم پانے والوں  کے ہاتھوں  جوانوں  کی گمراہی اور دین کی من پسند تعلیمات کے خطرے کی نشاندہی کی اور جوانوں  کو حقیقی علماء کی پیروی کرنے اور علماء سے عاری اسلام سے اجتناب کرنے کی نصیحت کی وہیں  آپ نے علماء کو بھی یاد دہانی کرائی کہ اپنے مخالف نظریات کو وسعت قلب کے ساتھ سنیں  اور  اجارہ داری اور تہمتیں  لگانے سے پرہیز کریں ۔  آپ فرماتے ہیں :

’’میں  یاد دہانی اور تاکید کے طورپر عرض کرتا ہوں  کہ آج جبکہ بہت سے جوان اور دانشور ہمارے اسلامی ملک کے آزاد ماحول میں  یہ محسوس کرتے ہیں  کہ وہ مختلف اسلامی مسائل اور موضوعات کے بارے میں  اپنے نظریات بیان کرسکتے ہیں  تو آپ لوگ خندہ پیشانی اور وسعت قلب کے ساتھ ان کی باتوں  کو سنئے اور اگر وہ غلط راستے پر چل رہے ہیں  تو آپ لوگ محبت اور خلوص سے لبریز بیان کے ساتھ ان کو اسلامی راستہ دکھائیں  اور اس نکتے کو مدنظر رکھئے کہ ان کے معنوی اور جذباتی احساسات وجذبات سے صرف نظر نہیں  کیا جاسکتا ہے اور ان کی تحریروں  پر بے دینی اور گمراہی کی تہمت نہیں  لگائی جاسکتی اور سب کو دفعتاً شک وتردد کی وادی میں  نہیں  دھکیلا جاسکتا ہے‘‘۔(پیام استقامت، تیر ماہ ۶۷۷)

پس ثابت ہوا کہ حکومتی اسلام کے برخلاف اسلامی حکومت میں  شریعت اسلامی کے مقرر کردہ حدود میں  فکر واظہار کی آزادی ہے اور کسی کو یہ آزادی سلب کرنے کا حق حاصل نہیں  ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں  اس سلسلے میں  بہت گرانقدر نکات پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً، شق ۲۴ میں  آیا ہے ’’اخبار وجرائد اس وقت تک مطالب بیان کرنے میں  آزاد ہیں  جب تک وہ اسلامی اصولوں  یا عمومی حقوق کے خلاف مطالب درج نہ کریں  اور ان پر پابندی لگانے کا تعین قانون کرے گا‘‘۔(آئین شق نمبر ؍ ۲۴۴)

’’جماعتوں ، پارٹیوں ، سیاسی جماعتوں ، اسلامی تنظیموں  اور معروف دینی اقلیتوں  کو آزادی حاصل ہے بشرطیکہ خود مختاری، آزادی، قومی محاذ، اسلامی قوانین اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد کے خلاف کوئی عمل انجام نہ دیں ۔ کسی شخص کو بھی ان کا رکن بننے سے منع نہیں  کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی ایک کا رکن بننے پر مجبور کیا جاسکتا ہے‘‘۔(آئین شق نمبر ؍ ۲۶)

امام خمینی  (ره) نے اپنے عالمانہ ارشادات کے ساتھ سیاسی میدان میں  علماء کی سرگرمی کی حمایت اور اس وقت کی دونوں  سیاسی جماعتوں  کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ بارہا ان کو اجارہ داری، ایک دوسرے پر الزام لگانے اور ایک دوسرے کو راستے سے ہٹانے جیسے کاموں  سے منع کیا۔ مثلاً آپ فرماتے ہیں :

’’آج کوئی ایسی عقلی اور شرعی دلیل موجود نہیں  ہے جس کی بناپر ذوق اور فہم کے اختلاف حتی مینجمنٹ کی کمزوری کو طلاب اور فرض شناس علماء کی باہمی محبت اور اتحاد کے ختم ہونے کا سبب قرار دیا جاسکے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱، ص ۹۳)

ای میل کریں