واقعہ عاشورا کے تین بنیادی عناصر

واقعہ عاشورا کے تین بنیادی عناصر

دوران گزشتہ، مدرسہ فیضیہ میں عاشور کے دن امام خمینی(رح) کے اس یادگار خطاب کو یاد کیجئے۔ ایک عالم جس کے پاس نہ کوئی مسلح سپاہی ہے، نہ کوئی ہتهیار لیکن پهر اس عزت اور وقار کے ساته گفتگو کرتا ہے کہ اپنی عزت کے آگے دشمن کو گہٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے

عقل و منطق کا عنصر

امام عالی مقام کے خطبات اور بیانات میں صاف نظر آتا ہے۔ قیام سے پہلے، یعنی مدینہ سے کربلا تک امام کے نورانی بیانات کا ایک ایک جملہ ایک محکم اور پائیدار عقل و منطق کی حکایت کرتا ہے۔ اس منطق کا خلاصہ یہ ہے:

جب شرائط موجود ہوں، اسباب فراہم ہوں، اور موقع غنیمت ہو، تو مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیام کرے، چاہے اس میں خطرات ہوں یا نہ ہوں۔

جب اساس دین خطرے میں ہو، اور آپ اپنی زبان و عمل سے اس کا مقابلہ نہ کریں تو خدا یہ حق رکہتا ہے کہ اس غیر ذمہ دار انسان کے ساته ویسا ہی سلوک کرے جیسے اس ظالم اور ستمگر کے ساته کرے گا۔

دوسرا عنصر ، عزت وحماسہ کا عنصر

یہ مجاہدت اور یہ مقابلہ اسلامی عزت و وقار کے ساته ہو " وَلِلّٰہِ العِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلمُؤمِنِینَ " اور عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور مؤمنین کے لئے ہے۔ سورہ منافقون ۔

اس قیام اور جہاد میں ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اپنی اور اسلام کی عزت کی حفاظت کرے۔ اس مظلومیت کے اوج پر آپ کو ایک چہرہ نظر آتا ہے، ایک حماسی اور صاحب عزت چہرہ۔ اگر ہم معاصر سیاسی اور فوجی مقابلوں اور جہاد پر نگاہ کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ وہ افراد ہاته میں بندوق لے کر میدان جنگ کے لئے نکل پڑے، بسا اوقات انہوں نے خود ذلیل کیا ہے لیکن واقعہ عاشورا ایسا کچه بهی نہیں ہے۔
جب امام حسین(ع) ایک شب کی مہلت مانگتے ہیں تو عزت مندانہ طریقے سے مہلت لیتے ہیں۔ جب " ہل من ناصر" کہہ کر نصرت طلب کرتے ہیں وہاں بهی عزت و اقتدار ہے۔ مدینہ سے کوفہ تک کے راستے میں جب مختلف افراد سے ملتے ہیں، ان سے گفتگو کرتے ہیں اور انہیں اپنی نصرت کی دعوت دیتے ہیں، یہ ضعف و ناتوانی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ بهی ایک برجستہ عنصر ہے۔
دوران گزشتہ، مدرسہ فیضیہ میں عاشور کے دن امام خمینی(رح) کے اس یادگار خطاب کو یاد کیجئے۔ ایک عالم جس کے پاس نہ کوئی مسلح سپاہی ہے، نہ کوئی ہتهیار لیکن پهر اس عزت اور وقار کے ساته گفتگو کرتا ہے کہ اپنی عزت کے آگے دشمن کو گہٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یہ ہے عزت کا مقام و مرتبت۔

جی ہاں! عاشور کا تیسرا عنصر مہر و عطوفت ہے۔ جو خود اس واقعہ میں بهی نظر آتا ہے اور اس کے بعد بهی نظر آتا ہے۔ اس عنصر کا بہت اہم رول رہا ہے جس نے عاشورائی اور شیعہ تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممتاز بنا دیا۔

عاشورا صرف ایک عقلی اور استدلالی تحریک نہیں ہے بلکہ اس میں عتق و محبت، نرمی و مہربانی اور گریہ و اشک کا عنصر بهی پایا جاتا ہے۔ جذبات و احساسات کی طاقت بہت عظیم طاقت ہوتی ہے۔ اس لئے یہ ہمیں حکم دیتا ہے، رونے کا، رلانے کا۔

زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کوفہ و شام میں ایک گفتگو کرتی ہیں لیکن ساته میں مرثیہ بهی پڑهتی ہیں۔

امام سجاد علیہ السلام شام کے منبر پر جاکر عزت و افتخار کے ساته حکومت وقت کو شعلہ آور خطابت سے مخاطب ہوتے ہیں لیکن مرثیہ بهی پڑهتے ہیں۔

جذبات اور احساسات کے ماحول میں بہت سے حقائق کو سمجها جاسکتا ہے جو دوسری جگہوں پر سمجه نہیں آتے۔

بانی اسلامی جمہوریہ ایران حضرت امام خمینی(رح) قیام عاشورہ کے بارے میں اور اس قیام کی عزت مندی کے بارے میں فرماتے ہیں:

اسلام کو اس وقت تک کہ ہم یہاں بیٹهے ہیں، سید الشہداء(ع) نے زندہ رکها ہے۔ سید الشہدا ؑ نے اپنی ہر چیز کو، اپنے جوانوں کو، مال واسباب کو اور جو کچه بهی ان کے پاس تها (مال ومنال تو نہیں تها) بلکہ جوان تهے، اصحاب تهے، سب کو، راہ خدا میں دے دیا اور اسلام کی تقویت اور ظلم کی مخالفت میں۔ اس دور کی عظیم شہنشاہیت کے خلاف جو آج کی شہنشاہیت سے بڑی تهی، نہایت قلیل(1) افراد کو ہمراہ لے کر اٹه کهڑے ہوئے اور اگرچہ شہید ہوگئے مگر اس کو مغلوب کردیا اور اس نظام ظلم کو تارمار کر کے رکه دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

١۔ اپنے دور کے حاکم، مطلق العنان یزید بن معاویہ کے خلاف جنگ میں امام حسین(ع) کے ہمراہ ٧٢ افراد تهے اور اسی مٹهی بهر جماعت کے مقابلہ میں لشکر یزید کی تعداد کئی ہزار (ایک نقل کے مطابق 30ہراز) تهی۔ اس خونی معرکہ میں امام حسین علیہ السلام اپنے جملہ ساتهیوں سمیت شہید اور ان کے اہل حرم، فوج دشمن کے ہاتهوں اسیر ہوگئے۔

والسلام علی عبادہ الصالحین

التماس دعـــــا


ای میل کریں