انقلاب کے زمانے میں دنیا پر حاکم ہونے کے حوالے سے مشرق و مغرب کے تصور کی نفی کرتے ہوئے ایرانی عوام کا آزادی چاہنا عالمی تعلقات عامہ کے اندر ایک نیا نمونہ عمل تها جس نے بعد میں کچه ممالک اور زیادہ تر آزادی پسند ممالک کے عملی موقف کی داغ بیل ڈالی۔ امام خمینیؒ کی نظریاتی اور عملی رہنمائی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی جو ہر قسم کی آمریت اور محکومیت سے دوری پر قائم تهی، اوراستعماری نظریات کے پنپنے کے لئے ایک بڑی مشکل بنی ہوئی تهی۔ درحقیقت اسی موقف نے اس زمانے کی عالمی طاقتوں کے ڈهانچے کو درہم برہم کر کے محکوم ممالک کو سکوں کی سانس لینے کا موقع دیا۔ مشرق و مغرب سے دوری کے موقف نے ہی ایران کے زیر اثر ممالک کو باہمی محبت، اوراقتدار کی عادلانہ تقسیم اور آزادی طلبی کی طرف مائل کر دیا۔ مختصر یہ کہ "نہ شرقی نہ غربی سیاست" ایک اہم حقیقت کی طرف عملی اشارہ تها اور وہ یہ کہ اسلامی ممالک ہر سیاسی جائز مقصد تک پہنچنے کے لئے باہمی ارادے کے محتاج ہیں اور باہمی ارادہ بهی اسلامی اتحاد و محبت ہے۔ امام خمینیؒ اس اصل پر کافی تاکید کرتے ہیں:
تمام اندرونی بنیادوں اور بیرونی روابط میں "نہ شرقی نہ غربی" والی سیاست کو آگے رکهیں۔ کوئی خدا نخواستہ مشرق یا مغرب کی طرف جهکاؤ رکهتا ہے تو اسے سمجهائیں اگر سمجه جائیں تو بہتر ؛ ورنہ اسے الگ کر دیں ۔ اسی طرح اگر وزارت خانوں اور ملک کے دوسرے اداروں میں بهی اس طرح کا میلان ہو جو اسلام اور ملک کی راہ و رسم کے خلاف ہے ، تو پہلے انہیں سمجهانا چاہئے ؛ لیکن خلاف ورزی کی صورت میں کهلم کهلا اعلان کرنا چاہئے کہ سربراہی مناسب اور حساس عہدوں پرایسے سازشی عناصر کی موجودگی ملک کی تباہی و بربادی کا سبب بنے گی۔ " ( صحیفہ امام ؒ، ج۱۲، ص ۳۶۳)
" حوزہ ہائے علمیہ اور کالج و یونیورسٹیز کے طلباء پر اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں انقلاب اور اسلام کا دفاع کرنا لازم ہے اور ان دو مراکز میں موجود میرے محبوب رضاکاروں کواس بے لچک اصول " نہ شرقی نہ غربی" کا نگہبان ہونا چاہئے۔ اس وقت ہر جگہ سے بڑه کر حوزہ اور یونیورسٹی کو وحدت اور یگانگت کی ضرورت ہے ۔ انقلاب کے سپوتوں کس ذمہ داری ہے کہ وہ ان دونوں اہم اور حساس اداروں میں امریکہ اور سوویت کو ہرگز رسوخ کرنے نہ دیں۔ " (صحیفہ امام ؒ، ج۲۱، ص ۱۹۵)