حقیقت میں اگر ہم، ایثار، خلوص، فداکاری اور ذات باری تعالی نیز اسلام کے تئیں عشق کا مکمل ترین مصداق پیش کرنا چاہیں تو رضاکارانہ طور پر خدمت دین کے جذبات سے سرشار افراد کے سوا کون اس کا حقدار ہو سکتا ہے۔
صحیفه امام،ج21،ص194
امام خمینی(رہ) کا ۲/آذر ۱۳۶۷ه، شمسی (23 نومبر 1988ء) کو دیئے جانے والے پیغام میں یہ جملہ رضاکاروں اور بسیجیوں کی اہمیت اور منزلت کو واضح کرتا ہے۔ بسیجی کے افکار پر مشتمل مبانی پہلی بار اسی پیغام میں امام خمینی(رہ) نے بیان فرمائے ہیں۔
حضرت امام خمینی(رہ) نے اس کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت بیان کرنے کے ساته ساته ہمیشہ اخلاص اور ہر کامیابی میں خود فراموشی پر زور دیتے ہوئے اس تمام کامیابیوں کو ذات خداوند عالم کا فیض جانا۔ آپ اکثر، جنگجو جوانوں کی فعالیت، ان کے عمل میں خلوص نیت کے سبب ملنے والی معنویت کے سبب خود کو شرمسار رقم فرماتے اور حقیقتاً آپ اس مقام ومنزلت کی حسرت کرتے۔
آپ(رح) فرماتے: میں ہمیشہ بسیجیوں اور رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے والوں کےخلوص نیت پر غبطہ کرتا رہا ہوں اور میری معبود سے یہی دعا ہے کہ مجهے ان کے ساته محشور فرمائے۔ اس لئے کہ اس دنیا میں میرے لئے باعث صد افتخار ہے کہ میں خود بهی ایک بسیجی ہوں۔
صحیفه امام،ج21،ص194
ایک دوسرا نمونہ ملاحظہ فرمائیں: امام خمینی(رہ) کی باتوں سے متاثر ہو کر ایک جوان نے یہ نعرہ لگایا: «ما همه سرباز توایم خمینى، گوش به فرمان توایم خمینى» (یعنی امام خمینی ہم سب آپ کے سپاہی اور آپ کا حکم سن کے لئے ہمہ تن گوش ہیں) اس وقت امام بزرگوار نے فرمایا:
ہم سب خداوند عالم کے سپاہی ہیں، انشاء اللہ۔ نہ تو آپ میرے سپاہی ہیں اور نہ ہی میں آپ کا۔ ہم سب نے ایک ساته قیام کیا تا کہ یہاں اسلام کی حفاظت کی جا سکے اور انشاء اللہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اسے ہم عام کریں گے۔ ہم سب ساته اور آپس میں دوست ہیں۔
صحیفه امام، ج13،ص335
منبع: جماران