ولایت فقیہ

ولایت مطلقہ فقیہ کی وضاحت

ولایت فقیہ ڈکٹیٹرشپ کی روک تھام کرتی ہے

ولایت مطلقہ فقیہ کے معنی یہ ہیں  کہ ’’قانون اولیہ اسلام‘‘کے سلسلے میں  فقیہ مکمل بے اختیار نہیں  ہے بلکہ وہ پیغمبر اکرم  ؐ اور ائمہ طاہرین  ؑ کی طرح ثانوی اور حکومتی قانون وضع کرسکتا ہے اور اسی طرح وہ حقوقی پیچیدگیوں ، کہ جن کا کوئی قانونی اور حقوقی راہ حل موجود نہ ہو، سے نکلنے بذات خود ضروری قدم اٹھا سکتا ہے۔ مثلاً ۱۳۵۸ ھ ش کو پاس کئے جانے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں  اس آئین میں  ترمیم کا کوئی راہ حل موجود نہیں  تھا، یعنی سب جانتے تھے کہ آئین میں  ترمیم کی ضرورت ہے لیکن آئین کے مطابق کسی کو ترمیم کا حق حاصل نہیں  تھا۔ آخرکار ۱۳۶۸ ھ ش کو ولی فقیہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں  ترمیم کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی اس طرح معاشرے کو قانونی بندگلی سے نجاتت  دلائی۔

اسی طرح پارلیمنٹ اور ماہرین کونسل کے درمیان اختلاف رونما ہونے کی صورت میں  اس کا کوئی حل بیان نہیں  کیا گیا تھا لیکن ولی فقیہ نے تشخیص مصلحت نظام کونسل کی تشکیل کے ذریعے اس مسئلے کو بھی حل کردیا۔ مذکورہ وضاحتوں  کا مطلب یہ نہیں  کہ ولایت مطلقہ کسی قانون کی پابند نہ ہو۔ آئین میں  قائد کے اختیارات کو واضح طورپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے آرٹیکل ۸ کی شق ۱۱۰ میں  قانونی پیچیدگیوں  کے حل کیلئے اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ قائد کے اختیارات میں  سے ایک یہ ہے کہ نظام کو درپیش ایسے مسائل جو عام ذرائع سے قابل حل نہ ہوں ، کو تشخیص مصلحت نظام کونسل کہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی روسے ایک قانونی ادارہ ہے، کے ذریعے حل کرائے۔

امام خمینی (ره)  ولایت فقیہ اور ڈکٹیٹرشپ کے درمیان پائے جانے والے فرق کے بارے میں  فرماتے ہیں : ’’اسلامی پالیسیوں  سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں  کہ ولایت فقیہ ڈکٹیٹرشپ کا باعث نبتی ہے حالانکہ ولایت فقیہ ڈکٹیٹرشپ کی روک تھام کرتی ہے۔ اسلامی حکومت قانون الٰہی کی حکومت کا نام ہے۔ پیغمبر اکرم  (ص)  اور امیر المؤمنین  (ع)  بھی قانون کے تابع تھے اور قانون کی سر مو خلاف ورزی نہیں  کرسکتے تھے۔ اسلام میں  ڈکٹیٹرشپ نہیں  ہے اور جو اسلام کے پاسباں  ہیں  اگر وہ ڈکٹیٹر بننا چاہیں  تو اسلام کے حکم کی بناپر اس پاسبانی سے محروم ہوجائیں  گے‘‘۔

مذکورہ جملوں  سے امام خمینی(ره)  کا مقصود یہ ہے کہ دائمی طورپر قائد کیلئے عدالت شرط ہے اس لئے وہ کبھی بھی قانون، حق اور عدالت کے راستے سے انحراف نہیں  کرے گا اور اگر خارج ہوگا تو بلا فاصلہ ماہرین کونسل اس کو معزول کردے گی۔ پس ولایت مطلقہ فقیہ لا قانونیت اور ڈکٹیٹرشپ کے مساوی نہیں  ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ معاشرے کا انتظام چلانے کے سلسلے میں  فقیہ درپیش قانونی مسائل اور ضروریات کو حکومتی اور ثانویہ قوانین اور دیگر اقدامات کے ذریعے حل اور پورا کرسکتا ہے۔ البتہ اس جانب بھی توجہ رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قانونی سیٹ اپ میں  عام حالات میں  ثانوی وحکومتی) قوانین کی تدوین کا حق ولی فقیہ سے پارلیمنٹ کو تفویض کیا گیا ہے اور یہ چیز اصلی نظرئیے کے ساتھ کوئی منافات نہیںں   رکھتی ہے۔

 

ای میل کریں