حقیقت قرآن۔۔۔ کسی ایک شخص کو حاصل نہیں ہے۔ نہ ان رائج علوم کے ذریعے اور نہ ہی قلبی وباطنی معارف کے ذریعے حتی کہ نہ مکاشفات غیبی کے وسیلے سے سوائے ختمی مرتبت (ص) کیلئے مکاشفہ تامہ الٰہیہ کے ذریعے سےحتی کہ امام خمینی (ره) قرآن کو ایک راز سے تعبیر کرتے ہیں ، ایسا راز کہ جو خدا اور اس کے پیغمبر (ص) کے مابین ہے:
قرآن ہماری حد سے بالاتر ہے۔ بشر کی حد سے بالاتر ہے۔ قرآن ایک ایسا سرّ وراز ہے جو ذات حق اور ولی اﷲ اعظم جو کہ رسول خدا (ص) ہیں کے مابین ہے اور انہی کے اتباع میں نازل ہوا ہے یہاں تک کہ اس نے حروف وکتاب کی صورت اختیار کی ہے۔
امام خمینی (ره)کا وہ کلام پیچیدہ ہے جس میں آیا ہے کہ اگر قرآن پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کے علاوہ بعض دوسرے افراد کیلئے بھی قابل استفادہ ہو تو وہ افراد خالص ترین اولیائے الٰہی ہیں ۔
قرآن، بنی نوع انسان کی تمنّاؤں کی دسترس سے باہر ہے، سوائے ان خالص ترین اولیائے الٰہی کے جو معنوی انوار اور الٰہی حقائق کے مطابق روحانیت کے ساتھ اس ذات اقدس سے مشترک اور تبعیت تامہ کے واسطے سے حضرت (ص) میں فانی ہیں کہ جنہوں نے علوم مکاشفہ کو بالوراثہ حضرت (ص)سے حاصل کیا ہے اور حقیقت قرآن جس نورانیت وکمال کے ساتھ حضرت (ص) کے قلب مبارک میں جلوہ گر ہوئی ہے، ان کے قلوب میں بھی اسی کے ساتھ منعکس ہوئی ہے۔
قرآن ایک ایسی نعمت ہے جس سے سب لوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔ جو فائدہ قرآن سے پیغمبر اکرم (ص)اٹھاتے تھے، وہ اس فائدہ سے الگ تھا جو دوسرے لوگ حاصل کرتے ہیں { انَّما یَعْرِفُ الْقُرآنُ مَنْ خُوطِبَ بِہ۔۔۔} قرآن کو وہی جانتا ہے جس پر یہ نازل ہوا ہے۔۔۔ انبیاء کا کمال یہ تھا کہ وہ مسائل یعنی دقیق عرفانی مسائل کو خاص الفاظ میں اس طرح بیان کرتے تھے کہ ہر شخص اس سے خاص مفہوم سمجھتا تھا لیکن اس کی حقیقت ان لوگوں کیلئے ہے جن کی سطح اس سے بلند ہے۔
اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ گرچہ قرآن کی حقیقت، لبّ لباب اور بالائی سطح خاص افراد کیلئے ہے لیکن قرآن قابل فہم اور قابل استفادہ ہے۔
بنابریں ، امام خمینی (ره) ایک اصول کے طورپر قرآن کے قابل فہم ہونے کے قائل ہیں ۔ وہ معتقد ہیں کہ قرآن فہم بشر کے مطابق نازل ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قرآن ان الفاظ کے ساتھ قابل فہم نہ ہو۔( صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۵۲۵)
قرآن لوگوں کے مختلف طبقات کیلئے آیا ہے۔ اس میں ایسے علوم ہیں جن کو وحی سے مختص ہستیاں جانتی ہیں اور دوسرے لوگ ان سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے بعض متکلّم اور ایک خاص گروہ کے درمیان راز ہیں جیسا کہ ہر حکومت کے بعض خفیہ ٹیلی گراف ہوتے ہیں اور ملک کے مفاد میں نہیں ہوتا ہے کہ سب لوگ ان سے آگاہ ہوں ۔ قرآن میں ایسے راز ہیں حتی کہ بعض روایات کے مطابق جبرائیل ؑبھی کہ جو قرآن کو لانے والے ہیں ان کے معانی کو نہیں جانتے تھے۔( کشف اسرار، ص ۳۲۲۲)
قرآن میں بعض ایسے علوم ومعارف ہیں جو بعض بلند مرتبہ دانشوروں سے مختص ہیں اور باقی لوگ ان سے بالکل محروم ہیں جیسے تجرد واجب اور اس کے قیومی احاطے کی براہین۔ لیکن عظیم فلسفی صدر المتألہین (ره)اور ان کے عالی قدر شاگرد فیض کاشانی (ره) جیسے اہل افراد ان علوم عالیہ عقلیہ کا انہی آیات سے استخراج کرتے ہیں ۔( کشف اسرار، ص ۳۲۳)
بنا بریں ، اگر امام خمینی (ره) یہ فرماتے ہیں کہ حقیقت قرآن کسی انسان کیلئے قابل فہم نہیں ہے تو اس سے ان کی مراد قرآن کا عالی ترین مرحلہ اور اطوار فعلیہ کے ساتھ متطور ہونے اور منازل خلقیہ پر نازل ہونے سے پہلے کا کلام ہے جو حضرت حق کے ذاتی شئون اور ان حقائق علمیہ میں سے ہے جو حضرت واحدیت میں ہیں ۔ امام خمینی (ره)اس کو کلام نفسی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس تک رسائی کو ناممکن جانتے ہیں ۔( آداب الصلاۃ، ص ۱۸۱۱)
ایسا زاویہ نگاہ، قرآن کے مراتب نزول کے حامل ہونے اور اس کے پیش نظر جس کو ہم بعد میں عرفانی تفسیر میں عقلانیت کے بارے میں بیان کریں گے، عرفانی تفسیر کے سلسلے میں ایک ایسی واضح بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ قرآن ایک ایسے دسترخوان کی مانند ہے جس سے تمام انسان اپنی ذاتی استعداد وکمالات کے مطابق سیر ہوتے ہیں ۔(صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۳۸۷۷)