مستضعفین اور مستکبرین کے درمیان مقابلہ

مستضعفین اور مستکبرین کے درمیان مقابلہ

امریکی سرمایہ داروں نے استحصال کرنے کیلئے ایران کا انتخاب کیا ہے

اگرچہ مستضعفین اور مستکبرین کے درمیان مقابلہ سرکش حکومتوں  کے وجود میں  آنے کے وقت سے ہی رہا ہے اور بالخصوص قرآن کریم اور معصومین  (ع) کے کلام میں  ان طبقوں  کی صورتحال، فکر اور رجحان کو بیان کیا گیا ہے لیکن امام خمینی(ره)نے ان طبقات کے متعلق بحث ایرانی تاریخ کے جدید دور اور دیگر اسلامی ممالک، جن میں  سامراج نے اثر ورسوخ حاصل کیا، سے شروع کرتے ہیں  اور قرآنی وتاریخی قرائن کو جدید صورتحال کے تجزئیے کیلئے پیش کرتے ہیں ۔ اور انہی تجزئیوں  کے ساتھ ان کے مصادیق، خصوصیات، بصیرت، رجحان، اعمال اور روش کو اکثر مسلمانوں  اور مستضعفین کے سامنے ان کی شناخت کرانے کیلئے پیش کرتے ہیں ۔

ایرانی معاشرے میں  لمبے عرصہ کیلئے خاندانی ’’ثروت‘‘ اور ’’طاقت‘‘ اجتماعی تسلّط کے دو بنیادی ذرائع خیال کئے جاتے رہے ہیں ۔ ’’ثروت‘‘ دفتری عہدوں  کو خریدنے کے امکان کو فراہم کرتی ہے جس کے ساتھ اقتدار تک رسائی اور ثروت کا حصول بھی ہوتا ہے۔ یہ چیزیں  صاحبان قدرت اور ثروت کو ممتاز حیثیت عطا کردیتی ہیں  اور سماج کا نچلا طبقہ یعنی عوام نہ صرف اقتدار سے محروم تھے بلکہ مقام حاصل کرنے کے وسائل مثلاً سرکاری تعلیم وتربیت، فوجی منصب اور ثروتمند افراد تک رسائی بھی حاصل نہ تھی۔ صرف عوام میں  معدودے چند افراد فریب کے ذریعہ اپنی خاص استعداد کو عروج بخشنے میں  کامیاب ہوجاتے تھے۔ پہلوی دور بالخصوص محمد رضاشاہ کے زمانہ میں  تیل کی قیمت کے بڑھ جانے، بیرونی سرمایہ کاری، اپنے پٹھو کی امریکی حمایت کی وجہ سے معاشرہ پر تین گروہوں  کا تسلّط تھا۔ دربار اور اس کا ماتحت فوجی ودفتری عملہ اور بیرونی سرمایہ دار، البتہ سرمایہ دار، سرکار ملازمین، تجار، سمال انڈسٹریز کے مالکین، حرفت جاننے والے اور پیشہ ور لوگ متوسط طبقے سے تعلّق رکھتے تھے اور اس کے بعد کسانوں  کی بڑی جماعت مزدور دیہاتی بادیہ نشین تیسرے طبقے کو تشکیل دیتے ہیں ۔ انہیںں  کسی قسم کا اثر ورسوخ حاصل نہیں  تھا  اور سرکار کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں  ہوتا تھا۔ یہ غیر متوازن طبقہ بندی جو سرمایہ کاری اور معاشی نظام کا نتیجہ تھی، معاشرہ کے اوپر تھوپ دی گئی تھی۔ امام خمینی  (ره) نے انقلاب سے پہلے کے سماج کی تصویر پیش کرتے وقت اپنی دور رس نگاہ سے انہیں  طبقہ بندیوں  کو پیش کیا جیسا کہ آپ ایرانیی  معاشرہ کے سامراج کے مقابل آنے اور طبقاتی اختلاف کے متعلق فرماتے ہیں :

سامراج اپنے سیاسی کارندوں  کے ذریعے عوام پر مسلّط ہوچکا ہے اور اس نے ظالمانہ معاشی نظام تھوپ رکھا ہے جس کی وجہ سے عوام دو حصوں  میں  تقسیم ہوگئے ہیں  ایک ظالم اور دوسرا مظلوم، ایک طرف کروڑوں  بھوکے اور محروم مسلمان اور دوسری طرف ثروتمند، سیاسی قدرت رکھنے والے بیہودہ عیاش، آوارہ اور اوباشوں  کی اقلیت ہے۔ ان محروم مظلوموں  کی مستقل کوشش یہ ہے کہ خود کو حاکم اقلیت کے تسلّط سے نجات دیں  لیکن ظالم حکومتی مشینری اس اکثریت کی رہائی سے مانع ہے۔( ولایت فقیہ، ص ۴۳۳)

آپ شاہ کے منصوبوں  پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

شاہ نے ۔۔۔ ملک کو صنعتی بنانے کے بہانے سے بیرونی اور داخلی سرمایہ کاروں  کیلئے صنعتی اداروں  میں  راہ ہموار کردی۔۔۔ اور ایران کے وہی بڑے جاگیردار نظر آج بڑی بڑی فیکٹروں  کے مالک بنے بیٹھے ہیں  یہ سبھی حکام کے رشتہ دار اور حکومت کے مطیع ہیں  جو ظاہر ہوگئے ہیں ۔( در جستجوی راہ از کلام امام، دفتر اول، ص ۸۱)

اسی باب میں  امریکی سرمایہ داروں  کے متعلق فرماتے ہیں :

امریکی سرمایہ داروں  نے استحصال کرنے کیلئے ایران کا انتخاب کیا ہے اور اپنے سرمایوں  کو مختلف صورتوں  ایران منتقل کردیا ہے۔( در جستجوی راہ از کلام امام، دفتر اول، ص ۸۱)

داخلی اور بیرونی سرمایہ داروں  کی اس فعالیت کے متعلق فرماتے ہیں :’’مزدوروں ، محنت کرنے والوں ، خانہ بدوشوں  اور پہاڑیوں  میں  رہنے والوں  کا حق ضائع ہو رہا ہے۔( در جستجوی راہ از کلام امام، دفتر اول، ص ۸۱)

ای میل کریں