خداوند متعال نے کائنات کے وجود کی بقاء اور رشد کے لئے سلسلہ نبوت کا اہتمام کیا ہے۔ یعنی عالم انسانیت کو تکامل تک پہنچانے کے لئے رہنماء بھیجے تاکہ وہ منابع ہدایت امت کی رہنمائی کر سکیں۔ جس سے امتیں اپنے انفرادی و اجتماعی سفر کو مکمل کے کمال و رشد کی منازل کو طے کر سکیں۔ بعثت انبیاء کا بنیادی مقصد نظام امت کا قیام ہے۔ جس کے لئے وہ تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ کائنات کے اندر ہر آنے والا نبی و رسول اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق امت کی فلاح کے لئے تگ و دو کرتا ہے لیکن سب انبیاء کا بنیادی ہدف امت کی اصلاح کے ساتھ نظام اسلامی کا قیام ہے۔ جس میں بعض انبیاء کو یہ توفیق حاصل ہوئی کہ انہوں نے نظام اسلامی کا نفاذ کیا۔ عہد انبیاء دوحصوں پر مشتمل ہوتا ہے ایک حصہ ان کی دور زندگی اور دوسرا حصہ ان کا اس دنیا سے جانے کے بعد کا ہے۔ پہلا مرحلہ انبیاء کا ترویج نظام امت کو سرانجام دینا ہے جب کہ دوسرا مرحلہ اس ہدف کے حصول کو ممکن بنانا ہے۔ دوسرے مرحلے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ انبیاء خود زندہ ہوں اور وہ اس کام کو سرانجام دیں بلکہ دوسرے مرحلے کو مکمل کرنا امت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لہذا وراثت انبیاء ؑ مال و ثروت نہیں ہوتی بلکہ وراثت انبیاء منشور ہدایت ہوتا ہے۔ وہ منشور کہ جس کو اپنا کر امتوں نے اپنے اجتماعی سفر کو مکمل کرنا ہوتا ہے۔
ہدایت و رشد کے راستوں کو انبیاء شروع کرتے ہیں لیکن ان کو ختم کرنا امت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ علماء انیباء کے حقیقی وارث ہیں۔ لیکن علماء کس وراثت کے مالک ہیں؟ وہ وراثت کہ جو امت کی فلاح کی وراثت ہے۔ نظام انیباء و فکر انبیاء کے وارث علماء ہوتے ہیں۔ علماء نظریات کے وارث ہوتے ہیں۔ وہ نظریات کہ جن کی ترویج کے لئے انبیاء ؑ نے اپنی زندگیاں صرف کی ہوتی ہیں۔ امام خمینیؒ کون ہیں؟؟؟ امام خمینی ؒ وہ وارث انبیاء ہیں کہ جنہوں نے انبیاء کی گمشدہ میراث کو زندہ کیا ہے۔ وہ حقیقی وارث کہ جن کی محنتوں سے کتابوں کے اندر پڑے ہوئے اسلام کو نفاذ ملا۔
امام خمینی ؒ ایک زندہ حقیقت کا نام ہے کہ جن سے تاحال زمانہ معارف نہیں ہوا۔ جن کے بارے میں آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں کہ امام خمینی ؒ کی معرفت شائد اس معاشرے کو دو سو سال تک ممکن ہوسکے ۔مزید فرماتے ہیں کہ (مل خمینی و ما ادراک مل خمینی) خمینی کیا ہے تمہیں کیا پتہ کہ خمینی کیا ہے۔ امام خمینی اسرار الہیہ میں سے ایک سر ہے کہ جو بہت بعد اس امت پر آشکار ہوگا۔ کیونکہ امام راحل جس زمانے کے اندر زندگی گزار گئے ہیں وہ زمانہ ان کا ہم عصر نہیں تھا جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا۔ عصر من دانندہ ای اسرار نیست یوسف من بہر این بازار نیست کہ جس زمانے کے اندر میں زندگی گزار رہا ہوں یہ زمانہ میرا ہم عصر نہیں ہے اور یوسف کو جس بازار میں فروخت کیاگیا وہ بازار یوسف ؑ کے قابل نہیں تھا۔ امام خمینیؑ کے ہم عصر لوگ بھی بہت کم تھے اور شائد اب بھی بہت کم ہیں۔ امام خمینی وہ مرد قلندر ہیں کہ جنہوں نے مدفون میراث آئمہ ؑ کو زندہ کیا اور دنیا کو بتایا کہ اسلام آفاقی دین ہے۔ وہ دین کہ جوعالمی حکومت کا نظام رکھتا ہے۔ امام راحلؑ باقی فقہاء سے ممتاز اس لئے ہیں کہ انہوں نے دنیا کےسامنے اسلام ناب کا نفاذ کیا کہ جو آج پوری شان و شوکت کے ساتھ وقت کے استعمار کے مقابلے میں نبرد آزماء ہے۔
میراث امام خمینی ؒ کیا ہے؟؟؟ امام راحل کی میراث انقلاب اسلامی ہے وہ انقلاب کہ جس نے پوری دنیا کے مظلومین کو ظالمین کے خلاف قیام کرنی کی دعوت و طاقت دی ہے۔ میراث خمینی وہ اسلام ناب محمدی ہے کہ جس کی ماہیت آج پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے۔ امام کی میراث وہ نظریات ہیں کہ جو پوری امت مسلمہ کے لئے ہیں۔ امام خمینی کسی خاص مکتبہ فکر کے لئے نہیں تھے بلکہ امام کی میراث آج میدان التحریر سے وال اسٹریٹ تک قیام کی صورت میں نظر آتی ہے۔ آج جہاں کہیں بھی آزادی حقوق کی بات ہوتی ہے اور قومیں اپنے حقوق لینے کے ظالم حکمرانوں کے خلاف قیام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں یہ سب امام راحل کا دیا ہوا ورثہ ہے۔ امام کے ظالم شاہ کے خلاف قیام سے پوری دنیا کے پسے ہوئے طبقات کو امید نجات نظر آئی ہے۔ کیونکہ امام خمینیؒ بار بار اپنے خطابات میں یہی فرماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ انقلاب جاگیرداروں اور وڈیروں کا انقلاب نہیں ہے بلکہ یہ جھونپڑیوں میں رہنے والے مظلومین کا انقلاب ہے۔ پوری دنیا کے مظلومین کو یہ سوچ دی کہ اپنی حیثیت کا ادراک کرو اور ظالم حکمرانوں کے سامنے اپنی حیثیت پیدا کرو۔ امام خمینی کی میراث رہبر معظم سید علی خامنہ ای ہیں کہ جو پوری دنیا کے مستکبرین کے مقابلے میں صحیح جانشین خمینی ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ اور اسی شان و شوکت کے ساتھ امت کی نجات کی کشتی کو طوفانوں سے بچاتے ہوئے منزل کی طرف لے کے جارہے ہیں۔
امام خمینی کی میراث لاکھوں شہداء کے خون سے وقوع پذیر ہونے والا انقلاب ہے۔ امام خمینی کی وراثت وہ نظریات ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے قائد ملت جعفریہ علامہ شہید عارف حسین الحسینی کے چہلم پر بھیجے جانے والے پاکستانی قوم کے نام پیغام میں کیا کہ ” اگر علماء و مبلغین اپنے شرعی وظیفہ کو سرانجام دیتے ہوئے عوام کو بتاتے کہ ایک ہی دین کے اندر دو متضاد راستے نہیں ہو سکتے تو آج یہ شہید ہمارے درمیان زندہ ہوتے” ۔ شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے۔ دھرتی کی بازیوں کی مکتی پریت میں ہے (علامہ اقبال)