تحریر: جعفر علی، جامعۃ الولایہ
الہیٰ رسالتوں کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوا۔ ماضی میں بھی لوگ انبیاء ع کے قول و فعل پر عمل کرتے رہے، یہاں ضرورت اس امر کی تھی کہ جو انبیاء و رسل آئے، وہ جہاں مردوں کے لیے مشعل راہ تھے، وہاں عورتوں کے لیے مشعل راہ تھے، لیکن عورت فطری اعتبار سے مردوں سے کچھ مختلف تھی، لہذا ان کے رہبری کے لیے ضروری تھا کہ کائنات میں کچھ ایسی خواتین موجود ہوں، جو کائنات کی عورتوں کے لیے مشعل راہ بن سکیں۔ حضرت سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا ان عورتوں میں سے ایک ہیں، جن کو کائنات کی تمام خواتین کے لیے سردار قرار دیا گیا۔ سیدہ سلام اللہ علیہا ایسی شخصیت کی مالکہ تھیں کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی نظام الہیٰ کے تحفظ کی خاطر قربان کردی، حتی کہ رحمت اللعالمین کے لیے رحمت قرار پائیں۔
دختر رسول نے ایسا کردار پیش کیا کہ ام ابیھا قرار پائیں، ماں ہونے کے ناطے سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا نے ایسی ہستیوں کی تربیت کی، جو سردار جوانان جنت قرار پائے۔ بیوی ہونے کے ناطے شوہر کی بہترین ساتھی اور مددگار رہیں، یہاں تک کہ حکومت الہیٰ کے تشکیل میں بھی ظالم و مقتدر لوگوں کے سامنے کھڑی ہوگئیں اور سخت سے سخت حالات میں بھی شوہر کے لئے ڈھارس بنی رہیں۔ سیدہ سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی آج کی عورت کے لیے مشعل راہ ہے۔ آج کی عورت ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہی ہے، جو مادی اعتبار سے مالا مال ہے۔ جس میں عورت کو ایک ماڈل کے طور پر استعال کیا جاتا ہے، یہ ماڈل جدید معاشرے کا تصور ہے، جس کی مثال آج ہم مغربی اور لبرل معاشرے میں دیکھتے ہیں، جہاں عورت کو صرف اور صرف مال کی ترسیل کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جہاں ایک خاتون کا مقصد صرف حسن کی آرائش اور مال و دولت جمع کرنا ہے، یہاں تک کہ عورت کی آزادی کا معنی بھی فحاشی اور ماڈرنزم لیا جاتا ہے۔
لہذا آج مغربی آزادی کی فکر میں کوئی قیود الہیٰ موجود نہیں، یہ مغربی آزادی کی فکر صرف حدود الہیٰ کو پامال کرنے کے لئے ہے، لیکن اس کے برعکس ایک الہیٰ نظریہ ہے، جس کے مطابق عورت کی حیثیت ایک عظیم ماں، بیٹی اور بیوی کی سی ہے۔ جس کے مطابق سماج میں عورت کی آزادی اس کی عفت و حیاء، تعلیم و تربیت اور اس کی فکر و شعور میں پنہاں ہے۔ اس عورت کی مثال عصر حاضر میں ایرانی بہو معصومہ بنت الھدیٰ کی شخصیت میں ملتی ہے۔ جنہوں نے اپنے پوری زندگی الہیٰ سماج کی آبیاری کے لیے صرف کر دی، جنہوں نے ہزاروں عورتوں کی سماجی و ثقافتی تربیت کی، یہاں تک کہ سامراجی نظام کے خلاف پھانسی پر چڑھ گئیں، لیکن حجاب پر آنچ نہ آنے دی۔ سماج جس گود میں پرورش پاتا ہے، وہ گود ایک ماں کی گود ہے۔
جس سماج میں ایک آزاد خیال الہیٰ تصور کا مالک مرد زندگی گزارتا ہے، وہ ایک عورت کا شوہر، ایک بیٹی کا باپ اور ایک ماں کا بیٹا ہے۔ اگر اس مرد کی تربیت میں ایک ماں کی پرورش، بیوی کی محبت اور بیٹی کی روپ میں رحمت شامل نہ ہو تو کیسے دنیا میں ایک الہیٰ فرد پیدا ہوسکتا ہے۔؟ یہ عورت کا کام ہے، جو سماج میں ایسے افراد کی تربیت کرے، جو انسانی معاشرے کو اس نہج پر لے جائے کہ جہاں انسانوں سے زیادہ انسانیت کی حیثیت ہو، جہاں مادہ پرستی پر روح کو فوقیت ہو، جہاں انسان کی عزت اس کا ایمان ہو، جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔ معاشرے کی اس لحاظ سے تربیت، ایک عورت تب کرسکتی ہے، جب وہ اپنی حیثیت کو جانتی ہو اور الہیٰ معاشرے کا تصور رکھتی ہو۔ اس کی رہبری ایسے ہاتھوں میں ہو، جنہوں نے کائنات میں ایسے افراد پیدا کیے، جنہوں نے انسانیت کا سر فخر سے بلند کیا، جنہوں نے اخلاق، جوانمردی اور تصور توحید کو نئی زندگی عطاء کی۔
سیدہ سلام اللہ کی پوری زندگی اسی الہیٰ معاشرے کی آبیاری میں وقف ہوئی۔ لہذا آج کی خاتون پر فرض ہے کہ وہ جناب سیدہ سلام اللہ کی زندگی کے اس دقیق نقطے کا مطالعہ کرے اور آج کے اس جدید معاشرے کا سیدہ سلام اللہ کی زندگی سے موازنہ کرے، تاکہ آج کی عورت اس مادہ پرست دنیا میں گم نہ ہو جائے اور وہ عظیم کام انجام دینے میں اپنا حصہ ڈال سکے، جس کی بنیاد حضرت سیدہ سلام اللہ نے اپنی مختصر سی زندگی میں رکھی تھی۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں
شرف میں بڑھ کے ثریّا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرَف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکنوں
مکالماتِ فلاطُوں نہ لِکھ سکی، لیکن
اسی کے شُعلے سے ٹُوٹا شرارِ افلاطُو