حضرت معصومہ (س) قم
حضرت معصومہ (س) آٹھویں امام، حضرت امام رضا (ع) کی بہن، امام موسی کاظم (ع) کی بیٹی اور امام جواد (ع) کی محترمہ پھوپھی ہیں۔ حضرت معصومہ (س) نے اپنے بھائی امام رضا (ع) کے ایران آنے کے ایک سال بعد بھائی کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے مدینہ سے ایران کا سفر کیا۔
خلاصہ جب آپ دوران سفر ساوہ نامی مقام پر بیمار ہوگئیں تو آپ نے خراساں جانے کے بجائے قم آنے کا ارادہ کرلیا اور قم کے بزرگ اور اہم شخصیت جناب موسی بن خزرج کے گھر پر مہمان ہوئیں۔ آپ کی وفات کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب حکومت کے مامورین نے آپ کے قافلہ پر حملہ کردیا اور آپ کے ہمسفر افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے تو آپ ان عزیزوں اور فدائیوں کے غم میں بیمار ہوگئیں اور خادم سے سوال کیا کہ یہاں سے قم کتنی دور ہے؟ خادم نے کہا: 10/ فرسخ۔ حضرت نے کہا: مجھے یہاں سے قم لے چلو۔ اور آپ موسی بن خزرج کے اصرار پر ان کی مہمان ہوگئیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہ (س) کو ایک عورت نے ساوہ میں زہر دیا جس کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئیں۔
آپ کی رحلت کے بارے میں متعدد اقوال ہیں لیکن مشہور قول یہی ہے کہ آپ (س) 23/ ربیع الاول کو قم آئیں اور 17/ دنوں سے زیادہ زندہ نہیں تھیں۔ اس بنا پر آپ کی رحلت کی تاریخ 10/ ربیع الثانی ہوتی ہے اور بعض نے 12/ ربیع الثانی لکھا ہے۔
جیسا کہ بعض بزرگان نے لکھا ہے کہ انصاف یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے قول میں جمع کرنے کے لئے اس عظیم خاتون کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کو اجاگر کرنے کے لئے ، ربیع الثانی کی 10/، 11/ اور 12/ تاریخ، "معصومیہ عزاداری" کے عنوان سے سوگ اور غم منایا چاہیئے۔
حضرت معصومہ (س) کی رحلت کے بعد آل سعد کی عورتوں نے آپ (س) کو غسل دیا اور کفن پہنایا اس کے بعد آپ کے جسم اطہر، موسی بن خزرج کے باغ(آپ کے موجودہ حرم مطہر) میں سپرد لحد کیا گیا۔ اشعریوں (آل سعد) کے درمیان ابھی یہ اختلاف شروع ہوا ہی تھا کہ آپ کو قبر میں کون اتارے..... اچانک قم ندی کی جانب سے دو نقاب پوش سوار نمودار ہوئے اور جب جسم اطہر کے قریب ہوئے تو گھوڑے سے اترے اور اس سرداب میں داخل ہوگئے جو آپ کو دفن کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا اور ایک دوسرے کی مدد سے انہیں سپرد خاک کردیا اور کسی سے کچھ بات کئے بغیر وہاں سے واپس ہوگئے۔ وہاں پر موجود مومنین میں سے کوئی یہ جان نہ سکا کہ یہ کون لوگ تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں امام جواد (ع) اور امام رضا (ع) تھے۔
حضرت معصومہ (س) کی ولادت 1/ ذی القعدہ سن 173 / ق اور رحلت سن 201/ ق ہے۔ اس اعتبار سے آپ کی عمر مبارک 28/ سال ہوتی ہے۔ فاطمہ ثانی، بانوی اہل قم، شہزادی قم، درخشاں نگین کی طرح ایران کے آسمان پر اپنی نورانیت بکھیر رہی ہیں اور اپنے پر فیض و برکت قدم سے زمانہ کو علم و آگہی دے رہی هیں۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) اس عظیم المرتبت خاتون کے بارے میں فرماتے ہیں:"ہمارے سارے شیعہ ان کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے۔"
خداوند کریم ہم سب کو اس بی بی کی شفاعت نصیب کرے۔ آمین۔