امام زادے، ان امام زادوں میں محدود ہے کہ ہمارے درمیان اس عنوان سے شہرت رکھتے ہیں اور گنبد اور بارگاہ رکھتے ہیں اور ان کے مرقد کی زیارت کے لئے شرف ہوتے ہیں؛ نہیں ہیں، بلکہ جو کچھ اب تک مشخص ہوچکا ہے یہ ہے کہ یہ بزرگان شہروں کے اطراف اور ایران کے گوشہ و کنار میں شیعوں کی وجہ سے پراگندہ ہیں اور بعض نے حکومتوں سے بچنے کے لئے محفوظ جگہ پر پناہ لی اور وہاں مدفون ہوگئے ہیں۔ امام زادوں کے درمیان ان میں سے کچھ خاص خصوصیات کے حامل ہیں کہ ان میں سے ایک حضرت معصومہ (س) ہیں، حضرت زینب (س) اور حضرت شاہ چراغ(ع) حضرت امام رضا (ع) کے بھائی اور ان جیسے بزرگوار ہیں۔ لیکن اس وقت گفتگو حضرت معصومہ (س) کے بارے میں ہے لہذا آپ کی عظمت اور شان کے بارے میں معصومین کے ارشادات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو بہترین گواہ ہیں کہ حضرت معصومہ (س) کا کیا مقام و مرتبہ تھا کہ بعض مقام ائمہ کی کسی اولاد کے لئے کہہ نہیں کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے جناب زینب (س) کے لئے بعض تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ حضرت ابوالفضل العباس (ع) کے لئے بعض بلند و بالا تعبیریں ہیں۔ لیکن حضرت معصومہ (س) کے بارے میں جو بعض تعبیریں روایات میں ہوتی ہیں درِّ یکتا کی حیثیت رکھتی ہیں۔
منجملہ امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
"الا ان للجنة ثمانیة ابواب ثلاثة منہا الی قم تقبض فیہا امراة من ولدی اسمہا فاطمة بنت موسی و تدخل بشفاعتہا شیعتی الجنة باجمعهم"
اس روایت کے کلمات مرحوم شوشتری نے نقل کیا ہے، یقینا حیرت انگیز ہیں۔ چونکہ حضرت معصومہ (س) سے مربوط جملہ جس کا آغاز "الا" سے ہے یعنی یاد رکھو، متوجہ کرنے والا جملہ ہے کہ جنت کے 8/ دروازے ہیں کہ اس کا 3/ دروازہ قم میں کھلتا ہے جہاں میرے اولاد سے ایک خاتون ہے جس کا نام فاطمہ بن موسی ہے یہ اسی جگہ دفن کی جائے گی اور اس کی شفاعت سے سارے شیعہ جنت میں جائیں گے۔ یہ بہت ہی بلند و بالا اور عظیم تعبیر ہے کہ حضرت معصومہ (س) تمام شیعوں کی شفاعت کرکے جنت میں لے جائیں گی۔ یہ "اجمعہم" تمام کی تاکید کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔
یا بعض روایات میں ہے کہ امام رضا (ع) نے فرمایا ہے:
"من زار المعصومة بقم کم زارنی"
جس نے معصومہ کی قم میں زیارت کی اس نے میری زیارت کی۔ اب اگر امام رضا (ع) کی زیارت کے بارے میں روایات ملاحظہ کی جائیں تو انسان حیران ہوجائے گا کہ اتنی ساری فضیلت امام رضا (ع) کی زیارت کے لئے بیان ہوئی ہے۔
یا حضرت امام صادق (ع)، حضرت معصومہ (س) کی زیارت کے بارے میں فرماتے ہیں:
"من زارہا فلہ الجنة"
جس نے معصومہ کی زیارت کی اس پر جنت واجب ہے۔
امام جواد (ع) بھی اپنی پھوپھی کے بارے میں فرماتے ہیں:
"من زار قبر عمی بقم فلہ الجنة"
جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے اس پر جنت واجب ہے۔ یعنی تین معصوم امام یعنی امام رضا(ع)، امام جواد (ع) اور امام صادق (ع) نے حضرت معصومہ (س) کے بارے میں ایک ہی جیسی تعبیریں استعمال کی ہیں کہ اس خانم کی عظمت شان اور رفعت مقام کی عکاسی کررہی ہیں اور تمام امام زادوں پر فضیلت و برتری کو بتارہی ہیں کہ یہ شان دوسروں کے لئے نہیں ہے۔
امام خمینی (رح) کی روش جو تواتر اور کثرت کے ساتھ نقل کی گئی ہے کہ حضرت امام (رح) قم اور نجف میں زیارت پر توجہ دیتے تھے خواہ جب نجف میں تھےاور امیرالمومنین (ع) کی زیارت کو ہر شب جایا کرتے تھے یا بعض شبوں میں کربلا امام حسین (ع) کی زیارت کو جایا کرتے تھے خواہ قم میں ہوں تو امام (رح) حضرت معصومہ (س) کے مزار پر پابندی کے ساتھ جایا کرتے تھے اور حاص عنایت رکھتے تھے کہ خود کو روزانہ حضرت کی زیارت کرنے جائیں۔ جس زمانے میں مسجد سلماسی میں درس دیتے تھے، حضرت معصومہ (س) کی زیارت ترک نہیں ہوتی تھی اور جس زمانہ میں درس و بحث میں بھیڑ ہونے لگی اور مسجد اعظم میں درس دینے لگے تو اسی طرح حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی پابندی کرتے تھے۔ اسی سلسلہ میں یہاٹںتک کہ نقل کیا گیا ہے کہ آیت اللہ مرعشی نجفی (رح) نماز صبح کے لئے حرم حضرت معصومہ (س) میں حاضر ہوتے تھے اور دروازہ کھلنے سے کچھ دیر پہلے دروازہ کے پاس بیٹھے رہتے تھے( اس زمانہ میں حرم کا دروازہ بند ہوجاتا تھا) اور کہتے تھے کہ میں بھی حضرت معصومہ (س) کے در کا بھیکاری ہوں اور دروازہ کے پیچھے کھڑا رہوں گا یہاں تک کہ دروازہ کھل جائے اور حرم میں داخل ہوجاؤں۔
حضرت امام خمینی (رح) بھی جو توجہ رکھتے تھے اگر جلاوطن نہ ہوتے ہوئے تو ہمیشہ قم میں رہتے۔ جیسا کہ پیرس سے واپسی پر بہت کم دنوں تک تہران میں رہے اور بہت جلد ہی اعلان کرادیا کہ میں قم واپس ہورہا ہوں اور قم میرا اصلی وطن ہے اور آپ نے قم کو اپنا وطن بنالیا تھا۔ جبکہ تہران میں آپ نے وطن کا قصد نہیں کیا تھا اور یہ امام کی قم اور حضرت معصومہ (س) کی جانب خاص توجہ اور عنایت پر دلالت کرتا ہےکہ وہاں وطن کا قصد کیا تھا اور اصلی وطن کے عنوان سے وہاں دوبارہ واپس آئے لیکن اللہ کی مرضی اس طرح ہوئی کہ مریض ہونے کی وجہ سے تہران جانا پڑا لیکن آخر عمر تک تہران کو وطن نہیں بنایا۔