اسلام چاہتا ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح بنیادی کاموں کی انجام دہی میں آگے آئیں ،اس وجہ سے ان پر لازم ہے کہ وہ اسلامی مملکت کے بنیادی امور میں شریک ہوں ، چاہے بالواسطہ طریقہ سے کیوں نہ ہو جیسے اسلام کیلئے طاقتورجوانوں کی تربیت کریں ،یا براہ راست جیسے معاشرہ کے تمام سیاسی امور میں شرکت کرنااور ان امورمیں پیش قدمی کرنا تاکہ ملک کی آزادی وخود مختاری، حکومت اسلامی کی تشکیل وبقا، مظلوموں کی حمایت اہل بیت (ع)کی اتباع میں سنت الٰہی کا احیا اور انسانی قدروں کی حفاظت ہو سکے ۔
حضرت فاطمہ زہرا اور جناب زینب (ع) جیسی مثالی ہستیوں کی قیادت اور جدوجہد حقیقت میں اس طرح کے فرائض اور ذمہ داریاں مسلمان عورتوں پر عائد کرتی ہے۔
انتخا بات میں خواتین کی حق رائے
ریفرینڈم اور ووٹ دینے اور لینے اور منتخب ہونے کیلئے خواتین کا شرکت کر کے پارلیمنٹ میں وارد ہونا، یہ بھی مردوں کی طرح عورتوں کا ایک سیاسی حق ہے کہ وہ بھی ملک کی آزادی اور خود مختاری میں اور حقیقی اسلام نافذ کرنے میں اپنا حق استعمال کریں ، چنانچہ خواتین کی سرگرمی اور آزادانہ ومشتاقانہ شرکت نے اسلامی جمہوریہ کے ریفرینڈم میں اسلامی جمہوریہ کی کامیابی دنیا میں ایک نمونہ قرار پائی ہے، حضرت امام خمینی (رح) خواتین کیلئے اسلامی جمہوریہ کی پارلیمنٹ کی رکنیت کو پہلوی پارلیمنٹ کی رکنیت سے مختلف قرار دیتے ہیں ،چنانچہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
’’آج کی صورتحال سابقہ صورتحال سے مختلف ہے، آج عورتوں کواپنے سماجی و دینی فرائض پر عمل کرنا چاہیئے، اپنی عمومی عفت کی حفاظت کریں اور اس عمومی عفت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سماجی وسیاسی کام کریں ، آج ماضی کی طرح نہیں ہے کہ فرض کریں وہ ایک عورت کو پارلیمنٹ میں لاتے تھے ، لیکن وہ عورت کیسی تھی؟ اورکیا کرتی تھی؟! اب بھی بعض خواتین پارلیمنٹ میں آئی ہیں ، لیکن اب ان کا رکن پارلیمنٹ ہونا ماضی میں رکن پارلیمنٹ ہونے سے مختلف ہے، پارلیمنٹ پہلے بھی تھی، پہلے بھی وہ رکن پارلیمنٹ ہوتی تھیں ، پہلے بھی یوم خواتین منایا جاتا تھا لیکن وہ عورتوں کی بے پردگی کا دن ہوتا تھا‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۱۹۴)
حکومت میں خواتین کا مالی جہاد اور سماجی امداد
مسلمان عورتوں کا مالی جہاد اور ان کا ان امور میں آگے آگے ہو نا، غریبوں ، ناداروں اور بے گھر لوگوں کی امداد کرنا، نیز بیماروں کی خدمت اور معذوروں کی تیمار داری کرنا، اسلامی جمہوریہ میں خواتین کی سرگرمیوں میں شامل ہے اور ان امور میں عورتوں کی کار کردگی کی اہمیت مردوں کی سرگرمیوں سے زیادہ ہے اور انقلاب اسلامی کی وجہ سے وجود میں آنے والے تبدیلیوں میں سے ایک بہترین تبدیلی ہے ۔
معاشرہ میں عورت کا بنیادی اور خصوصی کردار
امام خمینی (رح)کے کلام میں معاشرہ میں عورت کے بنیادی اور خصوصی کردار کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
عورتیں ہر سماج میں بگاڑ و اصلاح کا سرچشمہ ہوتی ہیں ، لہٰذا سماج میں ان کا کردار مردوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ وہ خود بھی تمام سیاسی، سماجی، ثقافتی یا اقتصادی میدانوں میں سرگرم عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فعال گروہ کو بھی اپنے آغوشوں میں تربیت دیتی ہیں ، وہ ایسے انسانوں کی تربیت کر سکتی ہیں کہ جو استقامت ،پائیدار ی اور انسان کی بلند قدروں کا حامل ہویا اس کے مقابلہ میں وہ سست اور کمزور انسان تربیت کریں ، لہٰذا معاشرہ کا بگاڑ اور اس کی بھلائی انھیں عورتوں کے ہاتھوں میں ہے ،ایک اسلامی معاشرہ میں ذمہ داراور فرض شناس خواتین قوم و ملت اور سماج کی بنیاد مانی جاتی ہیں ۔
اس مطلب اور اس سے مربوط تمام مباحث پر توجہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف سیاسی ومعاشرتی امور میں خواتین کا اولین وبنیادی کردار اسلامی ایران کے معاشرہ کے سماجی اور سیاسی نظام کے تکامل و حفاظت ہے، حضرت امام خمینی (رح)اسلامی ایران کے معاشرے میں عورت کے کردار کو مثبت اورغیر اسلامی معاشرہ میں تباہ کن جانتے ہیں۔