آپ کا نام فاطمہ ہے اور آپ کا سب سے مشہور لقب معصومہ سلام الله علیہا ہے۔ آپ کے والد محترم ساتویں امام حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام ہیں اور آپ کی والدہ محترمہ حضرت نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا ہیں۔ حضرت نجمہ خاتون بھی امام رضا علیہ السلام کی والدہ ہیں، اسی مناسبت سے امام رضا علیہ السلام اور معصومہ سلام اللہ علیہا بھائی اور بہن ایک ہی ماں سے ہیں۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان و شوکت
جناب شیخ عبداللہ موسیانی نے اپنے استاد حضرت آیت اللہ مرعشی نجفی قدس سرہ سے نقل کی ہے کہ وہ طلباء سے کہا کرتے تھے: میرے قم آنے کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد سید محمود مرعشی نجفی (جو مشہور زاہد اور عبادت گزاروں میں سے تھے) نے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے مزار پر آپ سے ملاقات کرنے کے لیے چالیس راتیں گزاریں۔ ان راتوں میں سے ایک رات (مکاشفہ کے عالم میں) آنحضرت کو دیکھا جو کہ میرے والد سے فرمایا: سید محمود آپ کو کیا چاہیئے؟ میرے والد جواب میں کہتے ہیں: میں جاننا چاہتا ہوں کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کہاں ہے تاکہ میں آپ کی زیارت کرسکوں۔
حضرت امیرالمومنین (ع) فرماتے ہیں: میں ان کی وصیت کے خلاف ان کی قبر بتا نہیں سکتا۔
میرے والد نے کہا: تو میں زیارت کے وقت کیا کروں؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا: خدا نے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان و شوکت سے نوازا ہے، جو شخص حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کرے۔
آیت الله مرعشی نجفی کہتے تھے: میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کے قابل نہیں ہوں، لیکن تم آپ کی زیارت کے لیے جاؤ، اس حکم کی وجہ سے میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اور امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے ایران آیا اور حوزہ علمیہ قم کے بانی حضرت آیت اللہ العظمیٰ حائری کے اصرار پر قم میں رہا۔
اس وقت آیت اللہ مرعشی کہتے تھے: "ساٹھ سالوں سے، میں ہر روز حضرت معصومہ (س) کا پہلا زائر رہا ہوں۔"
حاج سید جمال ہژبر کی عجیب شفاء
مرحوم آیه الله العظمی محقق داماد، مرحوم آیه الله العظمی شیخ محمد علی اراکی، مرحوم آیه الله شیخ مرتضی حایری و آیه الله سید موسی شبیری، سید جمال ہژبر کی شفاء کی داستان بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری (متوفی 1355ھ) کی مرجعیت کے دور میں پیش آیا۔ مرحوم آیت الله العظمی اراکی اس طرح بیان کرتے ہیں:
سادات میں سے ایک شخص جن کا نام حاج آقا جمال ہژبر تھا، فالج کا شکار ہو گیا تھا اور اسے کندھوں پر اٹھا کر مدرسہ فیضیہ میں عشرہ عاشورا میں مرحوم حاجی شیخ عبدالکریم حائری کی طرف سے منعقد کی جانے والی مجالس میں شرکت کرنے کے لئے لایا جاتا تھا۔ ایک دن حاج شیخ عبد الکریم کے خادم جناب سید علی سیف نے جناب جمال سے کہا: اے سید! اگر تم سچ کہتے ہو کہ اولاد رسولخدا (ص) ہو تو لوگوں کو کیوں تکلیف دیتے ہو؟ جاؤ اور حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) سے کہو کہ وہ تمہیں شفا دیں۔
یہ بات سید جمال کی دل میں لگی، وہ آنکھوں میں آنسو لیے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم پر گئے اور اپنی شال (جو سیدوں کی نشانی تھی) اپنے سر سے اتار کر اس کی ایک گوشہ کو مزار سے باندھ دی اور کہا: ’’میں اس وقت تک نہیں اٹھوں گا جب تک میں ٹھیک نہیں ہو جاتا۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ سو گئے، اسے نیند میں ہی شفا بخشا گیا اور اس کی ہتھیلی میں ایک کاغذ دیا گیا تاکہ حاج سید حسین آقا علوی (مجلس پڑھنے والے) کو دیا جائے۔ بیدار ہونے کے بعد، اسے احساس ہوا کہ وہ صحت یاب ہو گیا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک خط ہے، وہ حاج سید حسین کو خط پہنچانے کے لیے جوش و خروش سے اٹھتا ہے۔ اس نے خط کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا یہاں تک کہ اسے جناب حاج شیخ عبدالکریم حائری کو دینے کی ہمت بھی نہ ہوئی، انہوں نے کہا کہ مجھے یہ خط جناب حاج سید حسین آقا کو دینا ہے۔ معلوم نہیں اس خط میں کیا لکھا تھا۔