رحمت الٰہی

کیا خدا کی رحمت ہمیں گمراہ ہونے سے بچاتی ہے؟

امام خمینی (رح) رحمت کی مختلف اقسام کو شمار کرتے ہیں اور رحمت کی بنیاد کو وہی "رحمت مطلق" سمجھتے ہیں جو پوری کائنات کو محیط ہے اور ہر مخلوق کو اپنے کمال تک پہنچاتی ہے

رحمت؛ خدا کی صفات میں سے ہے اور غضب کے مخالف ہے۔ انسانوں میں رحم کا مطلب نرم دل ہونا ہے اور خدا میں اس کا مطلب ہے رزق دینا، احسان کرنا، بخشش کرنا، معاف کرنا وغیرہ۔ شیعوں کے کلامی نقطہ نظر سے رحمت الٰہی سے مراد ضرورت مندوں اور مسکینوں پر احسان کرنا ہے۔ خدا کی رحمت کاملیت، عمومیت اور کمال کی خصوصیات سے مستفید ہوتی ہے۔

 

خدا کی رحمت دو قسم کی ہے:

الف) رحمت رحمانیہ: اس کا مطلب، ایک بے حد اور ہمہ گیر رحمت جو تمام وجودوں پر چمکتی ہے۔

ب) رحمت رحیمیہ: اس سے مراد ایسی رحمت ہے جس میں صرف وہی لوگ شامل ہیں جو پرہیزگار ہوں اور تقوی سے زندگی گزاریں۔ قرآن کی بعض آیات کا مفہوم رحمت رحیمیہ ہے۔ (عنکبوت/۲۱) اور دوسروں کے معنی رحمت رحمانیہ ہیں۔ (یس/22)

 

امام خمینی (رح) رحمت کی مختلف اقسام کو شمار کرتے ہیں اور رحمت کی بنیاد کو وہی "رحمت مطلق" سمجھتے ہیں جو پوری کائنات کو محیط ہے اور ہر مخلوق کو اپنے کمال تک پہنچاتی ہے۔ (شرح حدیث جنود عقل و جهل، ص 186) امام خمینی کی نظر میں "رحمت مطلق" رحمانی اور رحیمی میں تقسیم کیا جاتا ہے اور رحمت رحمانی اور رحمت رحیمی "باب وجود" کی مفتاح اور "کتاب تدوین" کی مفتاح ہیں۔ (شرح حدیث جنود عقل و جهل، ص 319)

 

ہدایت اور گمراہی کوئی لازمی امر نہیں ہے، لیکن خدا کی ہدایت کا مطلب خوشی کے اسباب فراہم کرنا ہے، اور گمراہی کا مطلب سازگار حالات کو تباہ کرنا ہے؛ اور اسباب کی فراہمی یا اسباب کی تباہی انسانی اعمال کا نتیجہ ہے۔ پس اگر خدا کسی کو ہدایت کی توفیق دیتا ہے یا کسی کو توفیق سے محروم کرتا ہے تو یہ ان کے اپنے اعمال کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اور یہ خدا کی رحمت سے متصادم نہیں ہے۔ جیسا کہ امام خمینی کے الفاظ میں ہیں:

 

اس وقت آپ اﷲ کی رحمت میں  گھرے ہوئے ہیں۔ صحت وسلامتی، امن وامان، ہدایت اور عقل کی نعمت نیز اصلاح نفس کیلئے فرصت اور رہنمائی کی موجودگی جیسی نعمتیں آپ کو حاصل ہیں۔ آپ رحمت خداوندی کی ہزاروں اقسام کے اندر غوطہ ور ہیں  لیکن ان سے استفادہ کرنے کے بجائے شیطان کی اطاعت میں  مصروف ہیں۔ اگر آپ اس دنیا میں  ان نعمتوں  سے استفادہ نہ کریں گے تو خوب جان لیں کہ آپ دوسری دنیا میں بھی اﷲ کی بے پایاں  نعمتوں  اور شفاعت کرنے والوں  کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ اس دنیا میں شفاعت کرنے والوں  کی شفاعت کا جلوہ ان کی ہدایت ہے۔ اگر آپ ہدایت سے محروم رہیں گے تو شفاعت سے بھی محروم رہیں گے اس کے برعکس آپ کو جس قدر زیادہ ہدایت نصیب ہوگی اسی قدر شفاعت بھی نصیب ہوگی۔ رسول اکرم (ص) کی شفاعت رحمت الٰہی کی طرح مطلق اور بے پایاں  ہے۔ جو لوگ اس کے مستحق ہیں  انہیں  اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اگر خدا نخواستہ شیطان ان وسائل کے ذریعے آپ کے ہاتھ سے ایمان کی دولت چھین لے تو پھر آپ رحمت اور شفاعت کے قابل نہیں  رہیں گے۔ جی ہاں! دنیا وعقبیٰ دونوں  اﷲ کی رحمت سے لبریز ہیں ۔ اگر آپ رحمت کے طالب ہیں  تو پھر ان مسلسل نعمتوں  سے استفادہ کیوں  نہیں  کرتے جو اس نے اس عالم میں  عطا کی ہیں  اور جو دیگر عوالم کی رحمتوں  کا پیش خیمہ ہیں۔

 

اتنے سارے انبیاء اور اولیاء (ع) نے آپ کو اﷲ کے خوان نعمت اور مہمان خانے سے استفادہ کرنے کی دعوت دی جسے آپ نے ٹھکرا دیا۔ آپ نے ایک شیطانی وسوسے کے باعث ان سب کو ٹھکرا دیا، نیز قرآن کی محکم آیات، انبیاء واولیاء  ؑکی متواتر احادیث، عقلائے عالم کے ہاں  مسلمہ بدیہیات اور فلسفی دلائل وبراہین کو شیطانی وساوس اور نفسانی خواہشات کی نذر کردیا۔ وائے ہو میرے اور آپ کے حال پر کے ہم کس قدر غافل، اندھے اور بہرے ہیں۔ (چہل حدیث، ص ۱۵۰)

ای میل کریں