امام خمینی (ره)کے نزدیک عرفان نام ہے معبود تک پہنچنے، اس میں فانی ہونے، ’’لا‘‘ اور ’’الا‘‘ کی حقیقت کو باور کرنے، سوائے اس کے کسی کو نہ دیکھنے، محبوب کی آواز کے سوا کچھ نہ سننے، ’’علم الیقین‘‘ کو عبور کرنے، ’’عین الیقین‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’حق الیقین‘‘ کے بلند مقام تک پہنچنے اور ظاہر سے باطن کی طرف جانے کا۔
اگرچہ محسوسات کو علم کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ حقائق اور قواعد کا ادراک عقل کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن عرفان اور معرفت کے وسیلے سے ان کا شہود ہوتا ہے۔ تو عرفان درحقیقت پہنچنے اور پانے کا نام ہے۔ آپ (ره) کے رسا الفاظ میں عرفان پردوں کے ہٹنے سے عبارت ہے۔ کتابوں کا ڈھیر لگانے سے نہیں ۔
یہاں ہر طرح کی دو رخی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ عاقل ہے نہ معقول، عالم ہے نہ معلوم۔ عرفان کی بلندی پر شاہد ہے نہ مشہود۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب عارف اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ سوائے حقیقی مشہود، اس کے جلووں اور شئون کے کچھ نہیں دیکھتااور اس مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے جہاں جان جاتا ہے کہ کوئی ذاکر ہے نہ مذکور اور ’’حامد‘‘ و’’محمود‘‘ کا بیان مجبوری کی بناپر ہے کیونکہ ’’حامد‘‘ درحقیقت ’’محمود‘‘ ہی ہے۔ حقیقی حمد (حقیقت حمد) ’’حامد‘‘کی زبان ہی سے ممکن ہے۔
الغرض عرفان نام ہے عبور کا۔ محسوسات اور معقولات سے گزر کر خالص حقیقت تک پہنچنے کا اور اس کے شہود کا، عرفان حرکت ہے، اوپر کی جانب حرکت، اوپر جانے کی کوشش ہے۔ جوش وخروش ہے، سعی وکوشش ہے، جہاد ہےدائمی اور لگاتار جہاد، آزادی کی کوشش، جہاد آزادی، بندگی سے آزادی، قید نفس سے آزادی (جہاد اکبر) اور بیرونی دشمن سے گریز (جہاد اصغر)۔
امام (ره) کے نزدیک عارف ایسا انتھک مجاہد ہے جس نے جنگی لباس پہن رکھا ہو اور دو میدانوں میں جہاد میں سرگرم عمل ہو۔ ایسا عاشق ہو جو بس معشوق کے بارے میں سوچتا ہے اور فقط اسی سے مانگتا ہے۔
عارف چونکہ انسان پر نجاست، برائی، سینہ زوری اور مفادپرستی کی حکومت برداشت نہیں کرسکتا اس لئے جہاد یہاں اپنا حقیقی روپ دھارتا ہے اور عرفان کے ساتھ اپنے ذاتی ربط کو ثابت کرتا ہے۔ عارف ایک انتھک مجاہد، ایسا دلاور مجاہد کہ جس کا نصب العین طلبِ کمال، معنوی مقام تک رسائی اور مطلق اور ابدیت میں فانی ہوجانے کے سوا کچھ نہیں ۔
پہنچا ہوا آزاد عارف انسان کیلئے خاص مقام ومنزلت کا قائل ہوتا ہے۔ اسے زمین پر خدا تعالیٰ کا جانشین جانتا ہے اور اس پر خواہشات نفسانی اور زمانے کے طاغوتوں کی حکومت اور تسلّط کو جائز نہیں جانتا۔ عارف کے نزدیک انسان کائنات کا نچوڑ ہے۔ آئینۂ وجود کی جلا ہے۔ وہ آنکھ ہے جس سے خداوند تعالیٰ عالم کو دیکھتا ہے۔اشرف المخلوقات ہے۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ انسان کی اس طرح کی قدر ومنزلت پرمبنی نظرئیے کے ساتھ Humanism کے نظرئیے کا موازنہ ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔