امام(رح) نے عرفان، فقہ، اور سیاست میں دوستی قائم کی

امام(رح) نے عرفان، فقہ، اور سیاست میں دوستی قائم کی

آپ نے ایک فقیہ اور مرجع علی الاطلاق کے ناطے ایسے فتاوی صادر فرمائے کہ جسے آپ کے فقیہ شاگرد بھی برداشت نہ کرسکے۔

جماران ویب سائٹ کے مطابق: ڈاکٹر ببوک علیزادہ؛ عرفان نے امام خمینی(رح) کے فقہ پرکتنی اور کس حدتک تاثیر رکھا تھا کے بارے میں بیان کرتے کہتے ہیں:

عرفان، فقہ، فلسفہ اور سیاست ہر ایک خاص امتیازات و خصوصیات پر مشتمل ہے، چنانچہ ان میں سے ایک کا دوسر ے کے ساتھ جمع کرنا،کام کو مزید دشوار اور مشکل بنادیتا ہے، چہ جائیکہ یہ تمام ایک جگہ اکھٹا بیٹھ جائیں مثال کے طور پر عرفاء سالکان کے ساتھ طبیبوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں؛ یعنی ایسا نہیں ہے کہ سب کےلئے ایک ہی نسخہ پیش کریں، بلکہ ابتدا میں شخص کی شرح حال معلوم کرتے ہیں اور اسی کی تحت نسخہ تجویز کرتے؛ کیونکہ عرفان کی نظر میں تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں اور ان میں مختلف طبقات وگروہ پائے جاتے ہیں اور ہر طبقہ اپنا خاص نسخہ چاہتا ہے۔ لیکن فقہائے عظام تمام انسان چاہے مرد ہو یا عورت اور ۔ ۔ ۔ کو ایک نوع جانتے ہیں۔

امام خمینی(رح) کے عرفان کی آپ کے فقہ پر تاثیر یہ تھی کہ، آپ فقہ میں بھی سب سے پہلے طبقے اور گروہ کا تعین اور تشخیص دے تھے، اسی لئے آپ نے ایک فقیہ اور مرجع علی الاطلاق کے ناطے ایسے فتاوی صادر فرمائے کہ جسے آپ کے فقیہ شاگرد بھی برداشت نہ کرسکے۔ جیسے فتوی کا زمان اور مکان سے تاثیر لینے کا مسئلہ (نمونہ،رجوع: صحیفہ امام،ج۲۱ص۲۸۷) ایسی ایسی  موسیقوں اور آوازوں کے حلال ہونے کا حکم دینا جن کے حرام ہونے کا حکم خود آپ طاغوت کے زمانے سے دے چکے تھے۔ اسی طرح شطرنج کھیلنے کے جواز کا حکم ہے جو قم میں، آپ کے آفس کے انچارج کے اعتراض کی موجب بنی۔ (صحیفه امام-ج 21-ص 149 تا 151) حکومتی احکام کے مسئلے نے بہت زیاد شور و شرابہ برپا کیا اور فقہ پویا اور فقہ سنتی سے موسوم تحریکیں ایجاد کی۔ (ایضاً ص289) اسی طرح اسلام ناب محمدی کے پیرواں اور نشہ آور، بے درد، بے حس اور آمریکایی اسلام کے مسئلہ نے سیاست کے میدان میں اپنے بہت سے تاثیرات چھوڑا اور عملی سیاسی کے دائرہ میں اکثریت کی طرف جھکاؤ اور میلان کو وجود میں لایا۔ یہ سب امام کے فرماں و حکم کے تاثیرات ہیں۔

دوربینی اور دور اندیشی فلسفہ کا خاص طمغہ امتیاز ہے۔ امام کا جزئی اور معمولی حادثات سے نہ دڑنا اور دور اندیشی اور مستقبل پر نظر رکھنا، خاص کر لگاؤ کردہ جنگ کے مسئلہ میں بہت سے انقلابی نعرے جیسے "جنگ جنگ تا پیروزی" (صجیفه امام، ج 17 ص 412) اور صدام کا تخت الٹ دو، ان تمام کے سامنے ڈٹتے رہنا اور آپ کا دشمن کی مٹی کا کچھ حصہ پر قبضہ کرنے کےلئے وسیع پیمانے پر جنگی حملے اور اقدامات کرنے کا دستور، کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ جس پر فقہاء اور دیگر مراجع آسانی سے خاموش رہ سکیں اور قبول کریں۔  یہ حضرات مسلمانوں کے داخل ہونے اور نکلنے اور اسی طرح عبادات کے مسئلے میں بہت ہی چوکنا تھے اور اسی لئے امام کی مخالفت کر رہے تھے۔ لیکن امام کی شان، عظمت اور ہیبت باعث بنتی تھی کہ اپنی مخالفتوں کو سوائے بہت ہی کم موارد میں بر ملا نہ کریں۔ 

http://www.imam-khomeini.ir/

ای میل کریں