امام خمینی(رح) کی عرفان میں فنا ہونا حسینی(ع) عرفان میں فنا ہونے کے لئے ایک پل ہے، چنانچہ امام خمینی، سالار شہداء(ع) کی عرفانی شخصیت میں ذوب تهے۔ شہید صدر(رح) فرماتے تهے: «ذوبوا فی الإمام الخمینّی کما ذاب هو فی الإسلام.» امام خمینی میں فنا ہوجاؤ جیسے کہ وہ اسلام میں فنا ہوچکے ہیں۔
امام خمینی(رہ) کی ربانی شخصیت کا پوشیدہ ترین پہلوؤں میں سے ایک، ان کا عرفانی پہلو اور سیر وسلوک کا سفر ہے۔ یہ بات اہل معنی لوگوں سے پوشیدہ نہیں کہ ان کی عظیم شخصیت کی شناخت میں یہ ایک مشکل ترین پہلو ہے، کیونکہ امام خمینی(رہ) کی عرفانی دنیا میں قدم رکهنے کےلئے پہلے تو ان کی قرآن، سنت اہلبیت، اصول اور مکاتب عرفانی کے مبانی چاہیے ہوں گے اور دوسرا ان کی وجود اور شخصیت کی سنخیت جو کسی بهی ربانی شخصیت کی شناخت کا اساسی رکن ہے، اسی لئے خود قرآن اپنے بارے میں فرماتا ہے: «لایَمَسُّه الّا المطهَّرون»(واقعه79) اور «ما یعلم تأویلَه الّا الله و الرّاسخون فی العلم.»(آل عمران7)۔
اور عرفا کے مولا اپنے خطبہ میں فرماتے ہیں: «انّ امرَنا صعبٌ مستعصبٌ لا یعمله الّا عبدٌ مؤمنٌ امتحن الله ُقلبَه للإیمان و لایعی حدیثنا إلّا صدورَ أمینه و أحلامَ رزینه.» (نهجالبلاغۀ دکتر شهیدی،خطبۀ 189.) ہمارا کام بہت ہی مشکل ہے اور کوئی اسے برداشت نہیں کرسکے گا مگر وہ کہ جس کا دل اللہ نے ایمان سے جانچا ہو اور ہماری بات کو نہیں سمجهے گا مگر وہ جن کے عقل پختہ اور جن کے سینے امین ہوں، اور پختہ عقل وہی ہے جس کو مولوی(رح) "عقل کل" سے یا انبیاء اور اولیاء کی عقل سے تعبیر کرتا ہے، شاید «لُبّ» اور «اَلباب» یا عقل خالص قرآن میں اسی معنی میں استعمال ہوئے ہیں، اب ہمیں جان لئے چاہئے کہ اس حق کے ولی اور انسان کامل کی گفتار اور رفتار اور ان کا عرفانی مسلک ثقلین کے آفتاب کی ایک کرن ہے، کچه اس طرح کہ اس کی شرح اور فہم کے لئے عقل خالص اور غمگین دل چاہئے۔ «شمس تبریز تو را عشق شناسد نه خرد» یا حافظ کے مطابق:
شرح مجموعۀ گل مرغ سحر داند و بس که نه هر کو ورقی خواند معانی دانست
یا دوسرے لفظوں میں، بڑوں کی باتوں کو بڑے ہی سمجهتے ہیں، امام خمینی(رح) کی سیرت اور فکر کسی عام عقل اور فکر کی طرح نہیں بلکہ وہ ایک عظیم فکر اور شاندار خیالات ہیں۔ اور وہ جو اس بڑے شخصیت کے خیالات کو سمجهنا چاہتے ہیں تو چاہئے کہ وہ خود بهی افکار میں نظریاتی اور عملی پہلوؤں کے اعتبار سے عالی شخصیت کے حامل ہوں ورنہ تو ایسا نہیں ہوسکے گا کہ عام خیالات سے اس بڑی شخصیت کے خیالات اور افکار کی شرح اور تحلیل کرسکے۔
امام خمینی(رح) کی عرفان حسینی(ع) عرفان کی ایک کرن ہے، جیسا کہ سالار شہیدوں(ع) کی عرفان علی علیہ السلام کے عرفان کی ایک کرن ہے جو پہلی منبع یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عرفان اور قرآن کریم سے متصل ہے اور امام کا مسلک عرفان اسلامی کی چوٹی کی اونچائی اور ارتقاء ہے جو پچهلی صدیوں اور گزرے وقت میں قبول اور رد اور اوج اور حضیض کی جدوجہد کے تناؤ میں رہا ہے۔ امام خمینی(رہ) نے اس طوفان زدہ کشتی کو نجات دلائی، عرفان حسینی(ع) کے ساحل امن تک لے گئے اور اپنی ہدایت یافتہ نشان راہ سے اس میں سوار لوگوں کی فلاح پانے کا بیمہ کیا جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: «إنّ الحسین مصباحُ الهدی و سفینةُ النّجاةِ»
تو بس امام خمینی(رح) کا جذبہ حسینی(ع) عرفان کی تپش کی حرارت ہے جیسا کہ امام خمینی(رہ) کے ساتهیوں کا جذبہ اور حماسہ انقلاب کے قافلہ سالار کے عرفان کی کرن ہے۔