اسلامی روایات میں جہاں بھی فقیہ یا فقہا کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد ائمہ اطہار (ع) ہیں اور حضرت ولی عصر (عج) کی غیبت کے دوران یہ اصطلاح ان علمائے دین پر اطلاق ہوتی ہے جنہوں نے درجہ اجتہاد پر فائز ہوکر علم فقہ اور شریعت کے احکام میں مہارت حاصل کر لی ہے ، لہذا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ولایت فقیہ‘‘جامع الشرائط مجتہدین اور امام زمانہ (ع) کے عام نائبین کی ولایت سے پہلے پیغمبر اکرم (ص)اور ائمہ اطہار (ع) کی ولایت سے عبارت ہے۔
جامع الشرائط مجتہدین کی ولایت فقیہ اگرچہ امام زمانہ (ع) کی طویل غیبت (کبریٰ ) کے آغاز کے ساتھ اسلامی معاشرے میں عملاً جلوہ گر ہوئی ہے لیکن یہ ایک مقدس حکم ہے جس کا ذکر قرآن مجید ، احادیث رسول (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی روایات میں ملتا ہے۔ چنانچہ امام زمانہ (ع) فرماتے ہیں : {واما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیہا الی رواۃ حدیثنا فانہم حجتی علیکم وانا حجۃ اللہ علیہم } (زمانے کے واقعات وحادثات کے سلسلے میں ہمارے احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کریں اس لئے کہ وہ آپ لوگوں پر میری حجت ہیں اور میں ان پر خدا کی حجت ہوں )۔ اس بنا پر ولایت فقیہ کا مطلب اس جامع الشرائط مجتہد کی ولایت ہے جس کی عام مومنین پر سرپرستی امام معصوم (ع) کی طرف سے تایید اور تاکید کی گئی ہے۔ اس حدیث کے آخری حصے پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جامع الشرائط فقیہ کے الٰہی احکام کی اطاعت مومنین پر واجب ہے اس لئے کہ وہ عوام پر خدا کی حجت ہے ۔
افسوس کہ حضرت علی (ع) کے پانچ سالہ اور امام حسن (ع) کی قلیل مدت کے دور حکومت کے بعد ولایت فقیہ ایک حکومت کی صورت میں جلوہ گر نہیں ہوئی ، اس طرح معاشرہ حکومت معصومین (ع) کی سعادت سے محروم رہا۔
غیبت امام زمانہ (ع) کے آغاز کے بعد سے آگاہ و بیدار شیعہ فقہاء ولایت فقیہ کے قیام کی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن خاص عصری اور مقامی تقاضوں کی بنا پر حق اور شیعہ عقائد کی بنیاد پر مبنی اسلامی حکومت کی تشکیل میں وہ کامیاب نہیں ہوئے یہاں تک کہ گیارہ سو کچھ سالوں کے بعد حضرت امام زمانہ (ع) کی دعاؤں سے حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی(ره) اٹھے اور کئی صدیوں کے بعد ولایت فقیہ کی بنیاد پر ایک اسلامی حکومت تشکیل دی ، اس طرح خدا کے نیک بندوں کی دلی تاریخی آرزو پوری ہوگئی۔
ولایت فقیہ کی حاکمیت سے مذہبی روایات کے احیا کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوتی گئیں اور آہستہ آہستہ ایسی فضا وجود میں آئی جس میں مذہبی آداب و روایات کے پاک و پاکیزہ ، درخت میں کونپلیں پھوٹنے لگیں جو طاغوتوں کے سرد دور اقتدار میں خزاں کا شکار ہوچکا تھا۔
ایک ایسے ملک میں اسلامی حکومت کا قیام نا ممکن تھا جہاں طاغوت کا غلبہ تھا اور نئے عالمی نظام شرک کے سرغنوں نے اس کے لئے سہانے خواب دیکھے تھے لیکن خدا کی مشیت سے اور حضرت امام زمانہ (ع) کی دعائے خیر سے امام خمینی(ره) کی قیادت میں یہ حکومت قائم ہو رکر ہی۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کئی برس قبل تک کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ایسی حکومت جس پر امریکہ کے پولیس مین کا لیبل لگا ہوا تھا اور سیکیوریٹی اور فوجی ساز و سامان سے لیس لاؤ لشکر اور مخصوص گارڈ تک اس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی وہ اس قوم کے طوفانی سمندر کی اسلام پسندی کی شدید اور تند و تیز لہروں میں بہہ کر ہمیشہ کے لئے غرق ہوجائے گی جو اپنی بھر پور دینی اور ملکی تاریخ کے بل بوتے پر کھڑی ہونا چاہتی تھی۔
معاشرے کی انگ انگ میں مایوسی اور نا امیدی رچ بس گئی تھی ایسے میں امام خمینی(ره) نے خدواند عالم پر بھروسہ کرتے ہوئے منحوس شہنشاہی نظام کو نابود کر کے ولایت فقیہ کی بنیادوں پر مبنی ایک عوامی حکومت کے قیام کا خاکہ خاص و عام کے سامنے پیش کیا۔ امام خمینی(ره) طاغوتوں کی بالادستی کی وجہ سے اسلام کو پہنچنے والے خطرات کی تشریح کرتے ہوئے حکومت سے نبرد آزمائی کے لئے آگے بڑھے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر قید و بند اور جلا وطنی کی سزائیں سہتے ہوئے اسلامی حکومت کے قیام اور مذہبی روایات کے احیا کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے اسلامی انقلاب کی چنگاری بھڑکادی جس کے تند و تیز شعلوں نے (۱۱ فروری ۱۹۷۹ء ) کو طاغوتیوں کے خرمن وجود کو بھسم کر رکھ دیا۔