حج ابراہیمی

حج ابراہیمی

حج کا ایک عظیم فلسفہ، اس کا سیاسی پہلو ہے اور ہر طرف سے مجرم ہاتھ اس پہلو کو کچلنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں

حج سے متعلق آیات اور اس ضمن میں  نقل ہونے والی معصومین (ع)کی متعدد احادیث و روایات کے سرسری جائزہ لینے، نیز تاریخی کتب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس حج کو پیغمبر اکرم (ص)، ائمہ طاہرین (ع)  اور بابصیرت فقہاء پسند کرتے تھے اس کے کئی پہلو تھے جن میں  سے ایک اہم پہلو سیاسی تھا ۔

افسوس ہے کہ ان عناصر کی وجہ سے جن کا ذکر مذہبی روایات کی فراموشی کے بحث میں  ہوا ہے ، رسول خدا (ص)  کی رحلت اور حضرت علی (ع) کی قلیل مدت کی حکومت کے خاتمے کے بعد صدیوں  کے دوران حج کا یہ پہلو مسلمانوں  کی شدید عدم توجہ کا شکار ہوگیا۔

یہ بے توجہی جو بہت سے مسائل و مشکلات کا باعث رہی ہے ، اس وقت بھی امت مسلمہ کی دامن گیر ہے اور اس نے ماضی میں  بھی مسلمانوں  کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔

فاسق و فاجر حکمرانوں  کی بدفطرتی درباری علماء اور نام نہاد اسلامی پارلیمنٹوں  کے اراکین کی غداری کی وجہ سے مسلمانوں  کے عظیم اور عالمگیر اجتماع حج کے بے شمار سیاسی فوائد سے مسلمان محروم ہیں  جو ہر سال ایک معین جگہ پر منعقد ہوتا ہے اور تعجب یہ ہے کہ اس محرومیت کو وہ دینداری کی مصلحت قرار دیتے ہیں !  اس سلسلے میں  حضرت امام خمینی (ره) فرماتے ہیں  :

’’حج کا ایک عظیم فلسفہ ، اس کا سیاسی پہلو ہے اور ہر طرف سے مجرم ہاتھ اس پہلو کو کچلنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان بھی ان کے وسیع پروپیگنڈوں  سے متاثر ہوئے ہیں ۔  بہت سے مسلمان،  مسلمانوں  کے مفادات کو مدنظر رکھے بغیر سفر حج کو صرف ایک خشک اور کھوکھلی عبادت سمجھتے ہیں  جس دن سے حج شروع ہوا ہے اس کا سیاسی پہلو،  عبادی پہلو سے کم اہمیت کا حامل نہیں  رہا ہے۔ سیاسی پہلو،  سیاست کے ساتھ ساتھے اپنی جگہ عبادت بھی ہے۔ مسلمانوں  کے حالات کا ہر سال جائزہ لیا جانا چاہئے اور حج انہی معاملات کے لئے ہے، حج اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ ایک سال کے دوران مسلمانوں  کو در پیش مسائل کا جائزہ لیا جائے اور ان کی مشکلات ختم کرنے کی سعی و کوشش کی جائے‘‘۔

بہت سے بلند پایہ شیعہ علماء ، حج کے سیاسی پہلو کو فراموش کرچکے تھے،  ان حالات میں  حضرت امام خمینی(ره)  نے حج سے اس کے سیاسی پہلو کو علیحدہ کرنے کے نظرئیے پر خط بطلان کھینچا ، جس کی ترویج عام طور پر درباری علماء کرتے ہیں ۔  اس طرح امام (ره)  نے گوشہ  گمنامی میں  پھینکی جانے والی ایک اہم ترین مذہبی روایت کے احیا کے لئے کمر ہمت باندھی۔ اس سلسلے میں  امام (ره)  نے زائرین بیت اللہ خاص طور پر ایرانی حجاج کے سربراہ اور حج کے قافلوں  میں  شامل علمائے کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’جس طرح علاقے سے باہر کے درباری مولوی کہتے ہیں کہ حج کو سیاسی امور سے مستثنی قرار دیا جانا چاہئے ، در حقیقت (وہ کہہ رہے ہیں کہ) رسول اللہ (ص) اور قائدین اسلام بھی سیاست میں دخالت نہیں کرنا چاہئے۔ بہت سے علماء کا خیال ہے کہ علمائے دین کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہئے اور عالم دین کا فرض یہ ہے کہ وہ (فقہی) مسائل بیان کرے وہ بھی غیر سیاسی مسائل …‘‘۔

عظیم اسلامی انقلاب  کی کامیابی کے بعد حضرت امام خمینی(ره) نے حج کے سیاسی پہلو کے احیا کے سلسلے میں  متعدد پیغامات دینے کے علاوہ ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کرام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے مختلف فائدہ مند عملی طریقوں  کا حکم دیا۔  اس طرح انہوں  نے صرف وعظ و نصیحت پر اکتفا نہیں  کیا بلکہ عملی طور پر حج کے سیاسی پہلو کے ڈھانچے کا حکم دیا۔ اس طرح انہوں  نے صرف وعظ و نصیحت پر اکتفا نہیں  کیا بلکہ عملی طور پر حج کے سیاسی پہلو کے ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں  پر قائم کرنے کے اقدامات بھی کئے۔

ہر سال مکہ مکرمہ میں  مشرکین سے برائت اور مدینہ منورہ میں  وحدت مسلمین کے جلوس کا اہتمام انقلاب کے عظیم قائد کی جدت عمل کا اظہار ہے۔

ای میل کریں