حج کے تمام پہلووں سے زیادہ غفلت کا شکار اس کا سیاسی پہلو ہے
اب جب ہم فریضہ حج کے آستانے میں ہیں، ضروری ہے کہ اس کے عرفانی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی پہلووں کی طرف توجہ کریں۔ ممکن ہے کہ یہ امر ایک موثر اقدام کے لیے موثر ثابت ہو۔ ۔۔۔۔۔
اس اعتبار سے کہ اس عجیب مناسک میں احرام سے لیکر آخر تک بہت سارے عرفانی اور معنوی اشارے پائے جاتے ہیں کہ جن کو تفصیل سے یہاں بیان کرنے کا مقام نہیں ہے۔ صرف بعض " تلبیہ" [ لبیک اللهم لبیک۔۔۔] کے نکات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ لبیک کہنا ان لوگوں کی زبان سے حقیقت رکهتا ہے کہ جو صدائے حق کو اپنی دل کے کان سے سنتے ہیں اور اللہ کی دعوت پر لبیک کہتےہیں۔ مسئلہ اس کی بارگاہ میں جاضر ہونے کا مسئلہ ہے اور اپنے محبوب کے جلال و جمال کے مشاہدہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ گویا لبیک کہنے والا اس کی بارگاہ میں اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے اور اس کی دعوت کے جواب کو تکرار کرتا ہے۔ اور اس تلبیہ کے اندر مطلق شریک کی نفی ہے کہ جو اہل معرفت سمجهتے ہیں کہ شریک کی نفی نہ صرف الوہیت کی منزل میں بلکہ تمام اعتبار سے اس کے شریک کی نفی کرنا ہے اس کے بعد اس کے اندر کچه استحبابی فقرے بهی پائے جاتے ہیں جیسے الحمد لک و النعمۃ لک، حمد اور نعمت کو ذات باری تعالی سے مخصوص کرتےہیں اور شریک کی نفی کرتے ہیں یہ اہل معرفت کے نزدیک توحید کی غرض و غایت ہے۔ اور اس معنی میں ہے کہ جو بهی حمد اور نعمت اس جہان میں متحقق ہوتی ہے اللہ کی حمد ہے اور اس کی نعمت ہےبغیر کسی شریک کے۔ ہر مشعر اور موقف میں اور ہر حرکت اور سکون میں یہ مقصد جاری و ساری ہے۔
حج کے ان تمام پہلووں سے زیادہ مہجور اور غفلت کا شکار اس عظیم عبادت کا سیاسی پہلو ہے۔ کہ خیانت کاروں کے مخفی ہاته اس کو غفلت کا شکار بنانے میں کارفرماہے۔ اس دور کے مسلمان، اس زمانے کے مسلمان کہ جو جنگل کا زمانہ ہے ہر دور اور زمانے سے زیادہ ان ابہامات کو دور کرنے کے محتاج ہیں۔۔۔
صحیفہ نور، ج۱۹