38سال پہلے سات فروری 1979 بمطابق 18 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو ایران کے مسلمان عوام نے بڑی تعداد میں امام خمینی (ره) سے ان کی رہائش گاہ میں ملاقات کرکے آپ سے تجدید عہد اور وفاداری کا اعلان کیا۔ان دنوں پورے ایران میں بہت زیادہ جوش و خروش کا سماں تھا ۔تمام حالات تیزی سے رونما ہونے والی ایک تبدیلی کے غماز تھے ۔ آج کے دن عوام کے علاوہ فوجیوں کا ایک گروہ فوجی وردی میں ملبوس ہوکر امام خمینی (ره) کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام خمینی (ره) کو فوج کا سپریم کمانڈر تسلیم کرتے ہوئے امام خمینی (ره) سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا ۔ایران کا اسلامی انقلاب ایک اتفاق یا جذباتی تحریک کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اسکے پیچھے ایک عظیم مکتبی اور دینی نظریہ کارفرما تھا۔امام خمینی ( ره) نے جس تحریک کو نقطہ عروج تک پہنچایا اور جو ایک اسلامی حکومت کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی اسکے پیچھے علماء اسلامی دانشوروں اور مجاہدین کی ناقابل فراموش قربانیاں ہیں۔ ایران کا اسلامی انقلاب الہی اور اسلامی امنگوں کی بنیاد پر برپا ہوا اور اس انقلاب نے ایک بار پھر اسی عظیم دین کو عصر حاضر میں موضوع بحث بنادیا جسے اہل اسلام فراموش کرچکے تھے ۔
انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی 38 سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد اسلامی تہذیب و تمدن کی ترقی کے زيادہ آثار نمایاں ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے تمدنوں پر اسلامی تمدن کی برتری کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلامی تمدن کی بنیاد اسلام جیسے عظیم اور جامع دین پر استوار ہے ۔ اسلام ایک زندہ دین ہے اور اس نے انسانیت کو علوم میں غور و فکر اور ترقی کی رغبت دلائی ہے۔در حقیقت اسلام تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے والا دین ہے ۔ واضح سی بات ہے کہ عصر جدید میں اسلام کی حیات نو کے ساتھ اسلامی تمدن بھی ایک بار پھر درخشاں ہوگا۔اسلامی تمدن کی ایک نمایاں خصوصیت اس کی معنویت اور روحانیت ہے۔ اسلام ایک عظیم الہی دین کے ناتے انسان کو خدائے واحد کی عبادت، اور معنویت و اخلاق کی دعوت دیتا ہے ۔اس تمدن میں انسان کو پسندیدہ اخلاق و کردار کی دعوت دی جاتی ہے اس لئے یورپ کے تمدن کے برخلاف اسلامی تمدن سے تعلق رکھنے والے سائنس دان عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے درپے نہیں ہوتے ہیں اور نہ وہ ایسی چیزیں ایجاد کرتے ہیں جن سے معاشرے میں اخلاقی برائیوں کی ترویج ہوتی ہو۔اسلامی تمدن سے تعلق رکھنے والی حکومتیں اس بات کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ علم و ٹیکنالوجی اور معاشرے کی ترقی کی منصوبہ بندی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لئے صحت مند اور معنویت پر مبنی ماحول فراہم کریں۔مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی تمدن ان اصولوں اور اقدار کا نام ہے جن کا اسلام علمبردار ہے ۔
امام خمینی (ره) نے الہی تعلیمات کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہوئے عالم اسلام بالخصوص ایرانی عوام میں دینی بصیرت اور اسلامی شعور کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی اور اسکے لئے ایران سے باہر رہ کر بھی تقاریر، اعلانات ، بیانات اور عوام سے قریبی رابطے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ امام خمینی(ره) کو جب شاہ کی ظالم و جابر حکومت نے جلاوطن کیا تو اس وقت کسی نے آپ پر طنز کی کہ آپ نے جن افراد کے ذریعے انقلاب لانا تھا وہ لوگ اور ساتھی کہاں ہیں تو آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ میرا ساتھ دینے والے ماؤں کی گود میں ہیں۔آپ نے ماؤں کی آغوش میں موجود ان ایرانی بچوں کی اسلامی تربیت کا آغاز کیا اور جب یہ بچے اس دینی بصیرت اور اسلامی شعور کے ساتھ جوان ہوئے تو یہی نسل آپ کی وطن واپسی اور انقلاب کی کامیابی کا باعث بنی۔ بعد میں انہی نوجوانوں نے سامراج اور صدام کی مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں امام خمینی (ره) کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے تاریخ کی بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ امام خمینی(ره) نے ایرانی قوم کے اندر انقلاب برپا کرنے کے لئے ایران کی تہذیب تمدن اور ثقافت کو ایک نیا رنگ دیا ۔ایرانی عوام صدر اسلام سے محمد و آل محمد(ص) سے خصوصی محبت و عقیدت رکھتی تھی اور اس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اسکے عملی ثبوت بھی پیش کئے ہیں کربلا اور امام حسین علیہ السلام سے عشق ایرانی قوم کا خاصّہ ہے اور محرم و صفر اور ائمہ اطہار کی ولادت و شہادت کے ایام ایرانی قوم کی زندگی کا لازمی حصّہ ہیں ۔
ایرانی تاریخ میں علماء کرام اور دین کا درد رکھنے والے دانشوروں نے ہمیشہ ان ایام کو اسکے حقیقی فلسفے کے ساتھ منعقد کرنے اور منانے کی کوششیں کی ہیں لیکن طاغوتی حکومتوں اور سامراجی ذرائع نے مختلف حیلے ہتھکنڈوں سے عوام کو ان مقدس ایام بالخصوص انقلاب امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا کے حقیقی اہداف و مقاصد سے دور رکھنے کی کوشش کی کیونکہ کربلا کا حقیقی پیغام ظلم و کفر کے خلاف قیام تھا لہذا اسے چھپانے اور عوام کے احساسات و جذبات کو منحرف کرنے کی کوشش کی جاتی ۔امام خمینی (ره) نے کربلا اور انقلاب امام حسین(ع) کو اسکے حقیقی مفاہیم کے ساتھ پیش کیا۔کربلا کے واقعات اور عاشورا امام خمینی (ره) سے پہلے بھی تھا لیکن اس میں صرف گزشتہ زمانے کے یزيد اور شمر ہوا کرتے تھے جن سے نفرت کااظہار کیا جاتا تھا۔ آپ عاشورا کو صرف گریہ ماتم اور عزاداری تک محدود نہیں سمجھتے تھے آپ اکسٹھ ہجری کے شمر اور یزید سے برآت کی طرح موجودہ دور کے یزيد اور شمر سے بھی نفرت کے قائل تھے آپ نے عزاداری کی تیغ کی دھار کو طاغوتوں کے طرف موڑدی اور امام حسین(ع) کی شہادت اور واقعہ کربلا کو ظلم کے خلاف قیام میں تبدیل کردیا۔امام خمینی(رح) نے عاشورا کے اجتماعات کو اسلامی انقلاب کی کامیابی میں احسن طریقے سے استعمال کیا اور فلسفہ کربلا کے حقیقی مفاہیم کو عام کیا۔آج ایران میں کربلا اور عاشور ایک ایسی ثقافت میں تبدیل ہوچکا ہے کہ جس کا مطلب و مفہوم امربالمعروف نہی عن المنکر اور ظلم کے خلاف قیام ہے ۔