اجتماعات

امام خمینی(ره) کی اجتماعی حیثیت

امام(ره) کو مختلف جماعتیں اور تمام اسلامی گروہ مانتے تھے

مراجع کرام اور دینی شخصیات کے درمیان امام خمینی(ره)  عزم بالجزم، شجاعت اور روحی، معنوی وعلمی شخصیت کے تکامل جیسے صفات کے ساتھ مشہور تھے، آپ کا بیان مخاطب کے اندر ایک خاص تاثیر  رکھتا تھا یہاں  تک کہ لوگ جان فدا کرنے پر تیار ہوجاتے تھے۔ امام خمینی (ره)  کی شخصیت بہت سے صفات وخصوصیات کا مجموعہ تھی اور عالم، مجاہد اور انقلابی ہونے کے لحاظ سے اور نفس کے ساتھ طولانی جہاد کرنے اور شہودی معرفت اور عملی عرفان حاصل کرنے کے لحاظ سے آپ کی شخصیت معراج کمال پر تھی۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ امام خمینی(ره) کے کلام و پیغام کی حیرت انگیز تاثیر کا راز آپ کے مخاطبین کے  اندر آپ کی روحی ومعنوی حالت کا غلبہ تھا، تاریخ میں  ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں  جو معنوی لحاظ سے بلند مراتب کے حامل تھے لیکن ان کے کلام کا اثر حتی ان کے چند قریبی لوگوں  پر بھی نہ ہوتا تھا۔ امام  ؒکو مختلف جماعتیں  اور تمام اسلامی گروہ مانتے تھے۔ جس طرح کہ آپ کے ایران واپس آنے کے موقع پر لوگوں  نے آپ کا وسیع پیمانے پر اور بے مثال استقبال کیا ۔ جس وقت آپ اسلام و انقلاب کے دفاع کیلئے محاذ پر جانے کا حکم دیتے تھے تو شہادت کے مشتاق افراد کی لمبی لمبی صفیں  لگ جاتی تھیں، جس وقت آپ کے دل کی بیماری کی خبر نشر ہوئی بہت سے لوگوں  نے خط بھیج کر اور ہاسپٹل کے سامنے آکر اپنے قلب کا ہدیہ دینا چاہا۔ اس تمام محبت کے راز کو آپ کے اسی ایمان محکم، زہد، صداقت، خلوص، مرجعیت ورہبری کے پورے دور میں  طرز زندگی نہ بدلنے اور لوگوں  سے گفتگو کرنے کے انداز میں  تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اس بنا پر امام خمینی  ؒکے کلام کے اثر کو مختلف وعوامل واسباب میں  تلاش کرنا چاہیے، منجملہ ان کے مندرجہ ذیل چیزوں  کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے؛ اصالت فکر، دو ٹوک رائے، صداقت، لوگوں  کے احترام کا قائل ہونا اور ان کے مقاصد اور امنگوں  کا سودا نہ کرنا وغیرہ۔ امام خمینی  ؒنے کبھی دین کو ایک حربے کے طورپر استعمال نہیں  کیا اور دینداری، عرفان اور معنویت کا دکھاوا نہیں  کیا اور اپنے اجتماعی مقام ومنزلت کے اوج میں  بھی عوام کو اپنی شخصیت کی ڈھال قرار نہیں  دیا، اسی وجہ سے آپ تصریح فرماتے تھے:

’’کسی شخص کو اپنے آپ کو تنقید سے مبرا اور بالکل آزاد نہیں سمجھنا چاہیے‘‘۔(صحیفہ امام،ج ۲۱، ص ۱۷۹)

’’حکومت و عہدہ کسی شخص یا چند اشخاص کے ہاتھ میں  دوسروں  پر فخر وتکبر کا ذریعہ نہیں  ہے کہ اس منصب سے اپنے فائدے کی خاطر قوم کے حقوق کو پامال کیا جائے، قوم کا ہر شخص حق رکھتا ہے کہ براہ راست تمام لوگوں  کے سامنے مسلمانوں  کے حاکم کیلئے وضاحت طلب کرے اور اس پر تنقید کرے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۵، ص ۴۰۹)

آپ صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں :

’’جو لوگ قانون کو توڑنا چاہتے ہیں  وہ (اصل میں ) ایسے ڈکٹیٹر ہیں  جو اسلام کے نام پر آگے آئے ہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۴۱۵)

بعض لوگ تصور کرتے ہیں  کہ وہ خود اسلام کی تشخیص کا معیار ہیں  چاہے اقلیت ہی میں  کیوں  نہ ہوں، آپ اکثریت و اقلیت کی بحث میں  کہتے ہیں :

’’تم سب اس بات کے پابند رہو کہ قانون کو قبول کرو، اگرچہ تمہاری رائے کے برخلاف ہی ہو تمہیں  قبول کرنا چاہیے، اس لیے کہ معیار اکثریت ہے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۳۷۷)

ای میل کریں