ایک دن حاج احمد نے آقائے محمود بروجردی کے والد، امام کے داماد کو دوپہر کے وقت کھانے کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت میں، آقائے صانعی، توسلی، جمارانی اور دوسرے احباب موجود تھے۔ امام بھی نماز کے بعد آقائے محمود بروجردی کے والد کے احترام میں ان دوستوں کے اجتماع میں آئے۔ اتفاق سے ان دنوں آیت اﷲ خامنہ ای بھی اقوام متحدہ گئے ہوئے تھے اور وہاں انہوں نے تقریر کی تھی۔ حاضرین نے ان کے عمدہ نکات اور تقریر کے بارے میں تبصرہ کرنا شروع کیا۔ حاضرین ان کے گہرے بیانات اور اسلام وانقلاب کے بارے میں اپنی گہری آگاہی سے تعارف کرانے پر سراہ رہے تھے۔ اتنے میں آقائے محمود بروجردی کے والد نے بھی بات کرنا شروع کی۔ حاضرین خاموشی سے سننے لگے۔ انہوں نے امام کی سلامتی کیلئے دعا کی اور کہا کہ رہبر کبیر انقلاب اسلامی کے وجود کی برکت سے اب تو اسلام بڑے بڑے ادارے اور معاشرے جیسے اقوام متحد میں بھی پہنچ گیا ہے۔ امام ؒ نے خاص تواضع سے فرمایا: ’’یہ عوام ہیں کہ جنہوں نے اپنا راستہ اخذ کیا ہے اور مسئولین ( حکومت کے ذمہ دار افراد) کو بھی جان لینا چاہیے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اب چاہے میں رہوں یا نہ رہوں، یہ مشن جاری رہے گا۔ عوام کا میدان عمل میں حضور ہے جس سے ہم کو عزت ملی ہے‘‘ اس کے ساتھ فرمایا: ’’میں مطمئن ہوں کہ ایرانی قوم میدان عمل میں موجود رہے گی یہاں تک کہ ان کے میدان عمل میں باقی رہنے کا انداز اس سے بھی زیادہ ہوگا‘‘۔