وہ رنج ودرد جو ہماری قوم پر طاری ہوا اور آج ایک بیماری اور تقریباً ایک دائمی مرض کی طرح بن چکا ہے، وہ یہ ہے کہ اہل مغرب نے کوشش کی کہ ہمیں اپنے آپ سے غافل بنا دیں ، ہمیں اندر سے کھو کھلا بنا دیں ۔ہمیں یوں سمجھا دیں اور سمجھا بھی دیا ہے کہ تم خود کچھ نہیں ہو جو کچھ بھی ہے وہ مغرب ہے اور تمہیں چاہیے کہ مغرب کی طرف رخ کرو۔ اتاترک (کہ میں نے ترکی میں اس کا مجسمہ دیکھا ہے) کہ اس کا ہاتھ یوں اوپر تھا؛ کہا گیا کہ اس نے ہاتھ مغرب کی طرف کر کے اٹھایا ہے کہ ہماری ہر چیز مغربی ہونی چاہیے! ایک شخص جو رضا شاہ اور اس کے بعد بھی موجود اور مشہور رہا ہے (میں اس کا نام لینا نہیں چاہتا) پہلے وہ عمامہ بھی پہنتا تھا بعد میں وکیل بنا اور بعد میں سینیٹ میں جا بیٹھا تھا۔ یہ ان کیلئے راستہ تھا۔
اس نے کہا تھا کہ ہر چیز انگلینڈ کی ہونی چاہیے! اس وقت ایسا نقشہ تھا اور ایسے منصوبے تھے کہ جن کے ذریعہ ہم کو اپنے آپ سے غافل اور اندر سے کھوکھلا بنا دیا گیا تھا اور اس کے بدلے وہ ہمیں ایک مغربی شخص میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے کہ اگر ہم کسی اسکول کا نام رکھنا بھی چاہیں تو اہل مغرب کے ناموں میں سے ہی ایک نام ہو۔ ہماری سڑکوں کے نام بھی مغربیوں کے نام سے موسوم ہوں ۔ ہمارے دوا خانے اور دوسرے مراکز پر بھی ان کے نام ہوں ۔ اگر چاہتے ہیں کہ کسی جگہ کا بڑا احترام ہو تو لازم ہے کے مذکورہ جگہوں پر انہی کا نام ہو۔ اس نصف صدی میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ، ان میں کتاب کے مصنف کے سارے دلائل مغرب والوں کے نظریات پر مبنی ہوتے تھے۔ اگر یہ مصنفین کوئی بات کہنا بھی چاہتے ہیں تو اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہی بات یورپ نے بھی کہی ہے اور پھر اس مغربی فلسفی کا نام لیتے ہیں ۔ وہ لوگ جو کتاب لکھتے ہیں وہ اپنے آپ سے غافل ہیں اور ہم اور عوام بھی اندر سے کھو کھلے ہوگئے ہیں ۔ بجائے ایک مشرقی مسلمان باقی رہنے کے مغربی ایک ماڈل ہم پر مسلط کردیا گیاہے۔ ہم نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے۔ ہم مشرقی دماغ سے کام لینے کے بجائے مغربی فکر کے دلدادہ ہوگئے ہیں ۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ جب تک مغربی مفکرین کے نظریہ سے استدلال نہ کریں ،ہماری کتاب کا خریدار کوئی نہ ہوگا۔ اگر کتابوں کے خریدار زیادہ بنانا مقصود ہے اور اداروں کے گاہک زیادہ بنانے ہیں، دوا خانوں کی طرف توجہ زیادہ مقصود ہے تو ان چیزوں کو مغربی ناموں سے ہی موسوم کیا جانا ہوگا تاکہ گاہک بڑھیں ۔ مغربی مفکرین ہی کی باتوں کو نقل کیا جائے تاکہ لوگ کتاب پر توجہ دیں ۔ یہ رجحان سرزمین مشرق میں ایک بیماری ہے، ایک مرض ہے۔ جب تک یہ بیماری ہوگی اہل مشرق صحیح نہیں ہوسکتے، جب تک یہ مرض ہے۔سرزمین مشرق میں یہ ایک جراثیم ہے،جس سے ہم متاثر ہیں ۔ جیسے ہی ہم میں سے کوئی ایک بیمار ہوتا ہے فوراً انگلینڈ، فرانس یا امریکہ روانہ ہوجاتا ہے۔
محمد رضا کے دور میں ، میرے ذہن میں یہ ہے کہ کسی کو ایک لبلبہ (Pancreas) چاہیے تھا۔ ان کے بچوں میں کوئی بیمار تھا (ابھی مجھے ٹھیک یاد نہیں )۔ گلے کی دونوں کلٹلیوں (The Tonsils) کا آپریشن ہونا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ ڈاکٹر باہر سے منگوایا جائے۔ ایسا نہیں کہ ایران میں ڈاکٹر نہیں تھا۔ یہاں ڈاکٹر تھا ،لیکن خود ڈاکٹر اور وہ شخص جو ڈاکٹر کا محتاج تھا دونوں اپنے آپ سے غافل تھے۔ وہ اپنے آپ کو نہیں پہچانتے تھے۔ ان کے ذہن میں صرف اور صرف یورپ تھا۔ آج بھی جو کوئی بیمار ہوتا ہے باوجودیکہ یہاں ماہر ڈاکٹر موجود ہے اور وہی ماہر ڈاکٹر بھی اس مریض کا آپریشن کرسکتا ہے لیکن اس وجہ سے کہ اس کے ذہن ودماغ یورپی ہوچکے ہیں اس لیے کہتا ہے کہ اسے انگلینڈ لے جاؤ۔
کچھ دن، آج سے کچھ دن پہلے یہاں چند ڈاکٹر تھے اور میں انہی امور کے بارے میں بات کر رہا تھا کہ کیا ہوا ہے کہ انہوں نے ایران میں ڈاکٹر پیدا نہیں ہو نے دیئے اور یہی وجہ ہے کہ مریضوں کو باہر لے جایا جا رہا ہے؟ وہ کہتے تھے کہ نہیں ؛ ہم ڈاکٹر ہیں ۔ یہ لوگ جن کو باہر لے جاتے ہیں ۔ باہر بھی ایرانی ڈاکٹر بہت ہیں ، ان میں سے بہت ساروں کا علاج بھی وہی ایرانی ڈاکٹر کرتے ہیں ۔ میں نے کہا: اچھا! یہ تو اور بری بات۔ اس لیے کہ تم کو کیا گیا ہے کہ اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتے، اپنے آپ کو کھو بیٹھے ہو۔ تم ہی اپنی حیثیت میں رہنے کے بجائے تمہارے اندر ایک مغربی شخص سما گیا ہے۔ مغربی فلسفی آج محتاج ہیں کہ مشرقی فلسفی سے سیکھے۔ آج بھی ابن سینا ؒ کی کتابوں سے، میں سمجھتا ہوں کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے تک، بلکہ آج بھی اسی طرح مغربی ڈاکٹر استفادہ کر رہے ہیں ۔ وہاں پر ابن سینا کی کتاب ’’قانون‘‘ طب رسمی طورپر پڑھائی جاتی تھی، اس سے استفادہ کیا جاتا تھا۔
یہ مشرقی تحفہ گیا سرزمین مغرب میں ، اہل مغرب نے اس سے استفادہ کیا۔جبکہ ہم نے خود اپنے آپ کو فراموش کردیا اور اب ہم ابن سینا ؒ کو ہی نہیں پہچانتے۔
صحیفہ امام، ج ۹، ص ۳۹۰۔ ۶ ستمبر ۱۹۷۹ء