سات تیر (۲۸ جون) کے حادثہ کے ایک دن بعد میں شہید رجائی، آقائے موسوی اردبیلی اور آقائے ہاشمی رفسنجانی سب امام ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ راستے میں یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ان واقعات کی خبر امام کو کیسے بتائی جائے۔ وہ قلب کے بیمار بھی ہیں ، کہیں کوئی مشکل نہ پیش آئے۔ طے پایا کہ آقائے رفسنجانی ہماری طرف سے بولیں گے۔ جب امام ؒکی خدمت میں پہنچے تو کچھ دیر تک بیٹھے رہے۔ شرکاء جلسہ کا سکوت ہی پر اسرار تھا۔ امام ؒ بھی سمجھ رہے تھے۔ لیکن بجائے اس کے کہ آقائے رفسنجانی بات کریں ، خود امام نے بات شروع کی۔ اس کے بعد ایک واقعہ یوں بیان کیا کہ گزشتہ کسی زمانے میں ایک جگہ وبا کی بیماری پھیل ہوئی تھی۔ بہت سارے لوگ اس بیماری میں مر گئے۔ موت یوں عام ہوگئی تھی کہ ایک جنازے کے پہلو میں دوسرا جنازہ رکھا ہوا تھا۔ لوگ ان جنازوں کو دیکھ کر ہی وحشت محسوس کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگ وبا کے عام ہونے کے خوف سے بھی جان دینے لگے تھے۔ ایسے میں ایک روحانی عالم شخص نے ہمت کر کے لوگوں سے کہا: لوگو! کیا ہوا ہے؟ کیوں پریشان ہو؟ موت ہمارے قریب آگئی ہے اور وبا سے نزدیک ہونے والے بھی جان دینے لگے ہیں ۔ ڈرو نہیں ، ورنہ اس وبا کے خوف سے ہی تم سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے!
اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد امام ؒ نے فرمایا: ’’ہاں ! کل رات کے حادثہ میں بھی موت ہم سے قریب ہوئی ہے اور ان شہداء کی موت بھی ایک ساتھ واقع ہوئی ہے۔ اس میں کوئی پریشانی اور دہشت کی بات نہیں ‘‘۔ امام اس قدر مضبوط روح کے مالک تھے کہ آپ نے با قاعدہ ہمت وطاقت سے اس حادثہ کو برداشت کیا جس کی وجہ سے وہ سارے افراد جو امام کی خدمت میں پہنچے تھے ان سب کے اندر ایک بے مثال شجاعت وہمت پیدا ہوگئی اور انہوں نے بھی بڑی جرأت سے اس حادثے کے مرحلے کو طے کیا۔
امام ؒ نے واقعہ خود بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’آقائے اردبیلی، شہید بہشتی کی جگہ پر فرائض انجام دیں اور میں بھی حکم دیتا ہوں ‘‘۔ پھر آقائے رفسنجانی سے فرمایا: ’’جس طرح سے بھی ہو پارلیمنٹ کو برقرار رکھو۔ اگلے دن زخمی نمایندوں کو بھی ڈرپ اور ہسپتال کے بیڈ سمیت پارلیمنٹ میں لایا گیا تاکہ پارلیمنٹ کی تعداد اپنے طے شدہ نصاب کی حد تک پہنچ جائے۔