یہ تحریکیں امام حسین(ع) کے مرہون منت ہیں

یہ تحریکیں امام حسین(ع) کے مرہون منت ہیں

اشک اور گریہ، ابی عبداللہ الحسین(ع) کے پیرو روح اللہ کے مکتب میں، مکتب کے تحفظ کے بنیادی امور میں سے ہے۔

مجالس عزا کے بارے میں امام خمینی کے صریح اظہارات پر ایک نظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام خمینی{رح} اس بنیادی ثقافتی شیعی اصول کے بارے میں کتنی حساسیت رکھتے ہیں اور اس کو کتنی اہمیت دیتے ہيں اور اگر کوئی عزاداری پر تنقید کریں تو دیکھتے ہیں کہ حضرت امام{رہ} عتاب آمیز انداز سے جواب دیتے ہیں۔
روح اللہ خمینی، سید الشہداء(ع) کے لئے مجالس عزا کو شعائر الہی سمجھتے ہیں اور فرماتے ہيں: یہ مجالس در حقیقت اسلام کے سیاسی اجتماعات ہیں جن کا بہرحال تحفظ ہونا چاہئے اور جو لوگ ایرانی قوم کو ملت گریہ کہتے ہیں، امام(رح) ان کو نادان یا سفاہت میں مبتلا سمجھتے ہیں۔
اشک اور گریہ، ابی عبداللہ الحسین(ع) کے پیرو روح اللہ کے مکتب میں، مکتب کے تحفظ کے بنیادی امور میں سے ہے اور فرماتے ہیں: "ہماری ملت سیاسی گریہ و بکاء کی ملت ہے" اور دشمنوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: "ہم ان ہی آنسؤوں کا سیلاب برپا کرتے ہیں اس سیلاب کے ذریعے اسلام کے سامنے کھڑے کئے گئے بندوں کو تباہ کردیں گے"۔ 
عزاداری کا سیاسی پہلو امام کے نزدیک نہ صرف اہمیت کا حامل ہے بلکہ عزاداری کا بنیادی پہلو ہی سیاسی ہے، اگرچہ صدق وصفا، عشق و وفا اور دیگر تمام محسنات اور تمام خوبیاں عاشور اور عزائے عاشور میں نظر آتی ہے، لیکن آپ(رح) کے بقول ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ہمارے لئے عزاداری کا بلکہ حیات احسن کا نقشہ رسم فرمایا ہے۔

کیوں رضاخان پہلوی نے عزاداری سے روکا؟ امام خمینی(رح) اس کے جواب میں فرماتے ہیں:

"وہ دیکھ رہے تھے کہ جو مجالس ایران میں بپا ہوتی ہیں، وعظ و خطابت کی مجالس، عزاداری اور مصائب کی مجالس، ممکن تھا کہ ان کے لئے "مضر" ہوں!!۔۔۔

انھوں نے مجالس کو مکمل طور پر نیست و نابود کیا۔۔۔ یعنی انھوں نے اس فعال قوت سے قوت چھین لی۔

افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے میں انھوں نے ملت کو بھی گمراہ کردیا اور ان کی تشہیری مہم لوگوں پر اثر کرگئی اور انھوں نے علماء کو "انگریز کا نام دے کر" متعارف کرایا، درحقیقت انگریز ہی علماء کو انگریز کہہ کر مطعون کیا کرتے تھے۔

صحیفه امام، ج۷ ص354

کیا ہم بیہودہ عزاداری کرتے ہیں اور گریہ وزاری کا فلسفہ کیا ہے؟ اس کا جواب بھی ہم امام خمینی(رح) کی نگاہ حسینی(ع) سے لیتے ہیں، آپ(رح) فرماتے ہیں:
ہمیں گریہ کرنا چاہئے اور ہمیں اس مکتب کے تحفظ کے لئے، اس تحریک کے تحفظ کے لئے ہر روز مجالس بپا کرنی چاہئیں، یہ تحریکیں [تحریک انقلاب اسلامی ایران، تحریک حزب اللہ لبنان، تحریک انصار اللہ یمن اور تمام اسلامی بیداری] امام حسین سلام اللہ علیہ کے مرہون منت ہیں۔

یہ لوگ [جو تنقید کرتے ہیں] نہیں سمجھتے، ممکن ہے کہ ان میں سے بعض بدنیت ہوں، بعض کسی نقشے اور منصوبے کے تابع ہوں جس طرح کہ رضا خان کے دور میں ہورہا تھا۔۔۔
یہ سیاستدان نہیں جانتے کہ اس محراب و منبر نے اس ملک کی کیا خدمت کی ہے۔۔۔ یہ لوگ اگر قوم پرست بھی ہیں اور اگر ملک کے ہمدرد بھی ہیں انہیں ان عزاداریوں کو ہوا دینی چاہئے کیونکہ ان عزاداریوں نے اس ملت کی حفاظت کی ہے، یہ مجالس عزآ اور مصائب و گریہ ہے جس نے تمہارے ملک کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ 
صحیفه امام، ج۸ ص۵۲۸

 

التماس دعا والسلام علی من اتبع الہدی

ای میل کریں