امام مظلوم(ع) کی مجالس عزا کہ جو عقل کے جہل پر، عدل کے ظلم پر، امانت کے خیانت پر اور اسلامی حکومت کے طاغوتی حکومت پر غالب آنے کا ذریعہ ہیں کو حتی المقدور پورے ذوق شوق کے ساته منعقد کیا جائے۔ عاشورا کے خون سے رنگین پرچموں کو ظالم سے مظلوم کے انتقام کی علامت کے طور پر بلند کیا جائے۔
آئمہ اطہار علیهم السلام اور خاص کر کے امام مظلوم سید الشهداء (ع) کی عزاداری کے پرگراموں سے ہر گز غفلت نہیں کی جائے۔
مجالس عزا کو اسی طریقے سے جیسے اس سے پہلے انجام پاتی تهی برپا کیا جائے۔
مجالس عزا کو ، ماتمی دستوں کو جیسا سزاوار ہے محفوظ رکها جائے۔
آئمہ اطہار (ع) کی مجالس عزا کی حفاظت کریں۔ یہ ہمارے مذہبی شعائر بهی ہیں اور سیاسی شعائر بهی، ان کو محفوظ رکها جائے۔ یہ اہل قلم آپ کو بازیچہ نہ بنائیں۔ یہ لوگ آپ کو بازیچہ نبائیں اپنے مختلف انحرافی مقاصد کے ذریعے ، یہ لوگ چاہتے ہیں آپ سے ہر چیز کو چهین لیں۔
مجالس کو اپنی جگہ پر ہی برپا ہونا چاہیے۔ مجالس کو عمل میں لانا چاہیے اور اہل منبروں کو چاہیے کہ شہادت امام حسین (ع) کو زندہ رکهیں۔ قوم کو ان دینی شعائر کی قدر جاننا چاہیے۔ خاص کر کے عزاداری کو زندہ رکهیں عزاداری سے ہی اسلام زندہ ہے۔
ہمیں ان اسلامی سنتوں کی، ان اسلامی دستوں کی کہ جو روز عاشورا یا محرم اور صفر کے دوسرے دنوں میں سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں حفاظت کرنا چاہیے۔ سید الشهداء کی فداکاری اور جانثاری ہے جس نے اسلام کو زندہ رکها ہے۔ عاشورا کو زندہ رکهنا اسی پرانی اور سنتی روایتوں کے ساته، علماء اور خطباء کی تقاریر کے ساته، انہیں منظم دستوں کی عزاداری کے ساته بہت ضروری ہے۔ یہ جان لو کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری تحریک باقی رہے روایتی عزاداری کو محفوظ رکهو۔
علماء کی ذمہ داری ہے کہ مجالس پڑهیں۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ منظم دستوں میں گهروں سے باہر نکلیں۔ اور ماتم سید الشهدا کریں۔ البتہ جو چیزیں دین کے خلاف ہیں ان سے پرہیز کریں۔ لیکن ماتم کریں اپنے اجتماعات کی حفاظت کریں یہ اجتماعات ہیں کہ جو ہماری حفاظت کر رہے ہیں یہ آپسی اتحاد ہے جس نے ہمیں زندہ رکها ہے۔
وہ لوگ ہمارے پاک دل جوانوں کو دهوکہ دیتے ہیں ان کے کانوں میں آکر کہتے ہیں اب رونے کا کیا فائدہ؟ اب گریہ کر کے کیا کریں گے؟
یہ جلوس جو ایام محرم میں سڑکوں پر نکلتے ہیں انہیں سیاسی مظاہروں میں تبدیل نہ کرنا۔ مظاہرے اپنی جگہ ہیں۔ لیکن دینی جلوس سیاسی جلوس نہیں ہیں بلکہ ان سے بالاتر ہیں، وہی ماتم، وہی نوحہ خوانی،وہی چیزیں ہماری کامیابی کی علامت ہیں۔
پورے ملک میں مجالس عزا برپا ہونا چاہیے، سب مجلسوں میں شریک ہوں سب گریہ کریں۔
انشاء اللہ روز عاشورا کو لوگ گهروں سے نکلیں گے امام حسین (ع) کے تعزیانے اٹهائیں اور جلوس میں صرف عزاداری کریں گے۔
خدا ہماری قوم کو کامیابی عطا کرے کہ وہ اپنی پرانی روایتوں کے ساته عاشورا میں عزاداری منائے۔ ماتمی دستے اپنے زور و شور کے ساته باہر نکلیں اور ماتم اور نوحہ خوانی بهی شوق و ذوق کے ساته ہو اور جان لو کہ اس قوم کی زندگی اسی عزاداری کے ساته ہے۔
منبع: قیام عاشورا در کلام و پیام امام خمینى، (تبیان، آثار موضوعى امام، دفتر سوم) تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینى، چاپ دوم، 1373.