نبی کا کربلا کی سرخ مٹی چومنا

نبی کا کربلا کی سرخ مٹی چومنا

اگر یہ لوگ حقیقت میں سمجه جائیں اور سمجها دیں کہ مسئلہ کیا ہے اور یہ عزاداری کس لیے ہے اور اس گریہ کی اتنی اہمیت اور خدا کے پاس اس کا اتنا ثواب کیوں ہے؟ تو اس وقت ہمیں رونے والی قوم نہیں کہیں گے، بلکہ ہمیں انقلابی قوم کہیں گے۔۔۔

آسمان سے نبی اکرم(ص) کو یہ خبر دی گئی کہ عنقریب تمہارے بیٹے پر مصیبتوں کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ اگر وہ پہاڑوں پر پڑتے تو وہ پگهل جا تے، آپ نے متعدد مرتبہ امام حسین(ع) کے لئے گریہ کیا:

ام الفضل بنت حارث سے روایت ہے: میں امام حسین(ع) کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے رسول اللہ(ص) کی خد مت میں پہنچی جب آپ میری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے دیکها کہ آپ کی دونوں آنکهوں سے آنسو جا ری تهے۔

میں نے عرض کیا :اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا مشکل پیش آگئی ہے؟!

فرمایا: میرے پاس جبرئیل آئے اور انهوں نے مجه کو یہ خبر دی ہے کہ میری امت عنقریب اس کو قتل کردے گی!

ایک دوسری روایت میں ہے کہ:

ام المو منین ام سلمہ(س) کہتی ہیں: ایک رات رسول اللہ سونے کیلئے بستر پر لیٹ گئے تو آپ مضطرب ہوکر بیدار ہوگئے، اس کے بعد پهر لیٹ گئے اور پہلے سے زیادہ مضطرب ہونے کی صورت میں پهر بیدار ہوگئے، پهر لیٹ گئے اور پهر بیدار ہوگئے حالانکہ آپ کے ہاته میں سرخ مٹی تهی جس کو آپ چوم رہے تهے۔

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ یہ کیسی مٹی ہے؟ فرماتے ہیں کہ:

مجهے جبرئیل نے یہ خبر دی ہے کہ "حسین" کو عراق کی سرزمین پر قتل کردیا جائے گا!

میں نے پوچها: مجهے اس سرزمین کی مٹی دکهائو جس پر حسین قتل کیا جائے گا! اور یہ اسی جگہ کی مٹی ہے!

جی ہاں! اور یہ حدیث انس بن حارث سے مروی ہے جو خود بعد میں امام حسین(ع) کے لشکر میں ایمانی جذبہ لےکر صف شہادت میں رہا اور جام شہادت سے سیراب ہوگئے، فرماتے ہیں:

ایک دن نبی اکرم(ص) نے فرمایا: ''میرا یہ فرزند (حسین(ع) کی طرف اشارہ فرمایا ) کربلا نامی سرزمین پر قتل کیا جائے گا! تم میں سے جو بهی اس وقت موجود ہو، وہ اس کی مدد کرے!

اب موجودہ دور میں کچه نادان افراد، سامراجی ایجنٹ یا جمود پرست مسلمان نما حضرات ہم پر مختلف قسم کے تہمتیں اور ناسزا بلکہ کفر کے الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ کیوں ماتم، سینہ زنی اور دیگر ایام محرم الحرام کے رسومات بجالاتے ہیں؟ پس یہ لوگ مشرک ہوگئے ہیں کہ خاک کربلا (تربت حسینی(ع)) پر سجدہ کررہے ہیں!

یہ دعویدار حضرات! رفتار وسنت پیغمبر اسلام(ص) کو بلا دیا! اپنی کتابوں کی روایات کی طرف منصفانہ نظر نہیں ڈورتے، سلف صالح کے، نیز حقیقی اہل سنت وحدیث کے کردار چهوڑ کر چند صیہونی وہابی غلام بنیں ہیں اور دل وزبان سے شہادتین تلاوت کرنے والوں کو کافر کہلاتے ہیں، یاللعجب!

اب سن لیجئے امام خمینی(رح) کے کلام اور دیکهئے آپ کا موقف کیسے اور کیا تها! فرماتے ہیں:

شاید کچه مغرب زدہ لوگ ہمیں رونے والی قوم کہیں اور شاید کچه اپنے لوگ اس چیز کو نہ سمجه پائیں کہ ایک قطرہ اشک اور ایک مجلس کا کس قدر ثواب ہے۔ شاید اس چیز کو اور وہ ثواب جو دعاؤں کیلئے ذکر ہوا ہے اسے نہ سمجه پائیں اور نہ درک کرسکیں کہ دو سطر دعا کیلئے اس قدر ثواب کیونکر ہے۔ ان دعاؤں اور خدا کی جانب تمام لوگوں کی توجہ کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ ایک قوم کو ایک اسلامی مقصد کیلئے منظم کیا جائے۔ مجلس عزا صرف اس لیے نہیں کہ امام حسین(ع) کیلئے گریہ کریں اور ثواب حاصل کریں۔ البتہ ثواب تو اپنی جگہ پر ہے اور اخروی اجر نصیب ہوتا ہے، لیکن اہم چیز ان کا سیاسی پہلو ہے۔ ہمارے ائمہ(ع) نے صدر اسلام میں ایسا منصوبہ بنا دیا ہے جو آخر تک چلے گا اور وہ ہے ایک جهنڈے اور ایک طرز فکر کے تحت جمع ہوجانا اور اس کام میں عزائے سید الشہدا علیہ السلام سے بڑه کر کوئی بهی چیز موثر نہیں ہوسکتی۔ آپ یہ گمان بهی نہ کیجئے کہ اگر یہ مجالس عزا نہ ہوتیں، یہ سینہ زنی اور نوحہ سرائی کرنے والے دستے نہ ہوتے تب بهی ١٥ خرداد (٥ جون) کا واقعہ پیش آجاتا(1) کوئی طاقت بهی سید الشہدا(ع)  کی طاقت کے سوا ١٥ خرداد کو وجود میں نہیں لاسکتی تهی اور اس قوم وملت پر ہر طرف سے جو حملہ ہورہا ہے اور تمام بڑی طاقتیں اس کے خلاف سازشیں کر رہیں ہیں، مجالس عزا کی طاقت کے بغیر کوئی طاقت بهی اس کا سد باب نہیں کرسکتی۔ ان مجلسوں میں جو سید مظلومین(ع) کے سوگ اور غم اور اس شخص کی مظلومیت کا اظہار کرنے کیلئے ہوتی ہیں، جس نے رضائے خدا کی خاطر اپنی اولاد اور اپنے دوستوں کی جانیں قربان کردیں، ان مجلسوں نے جوانوں کو ایسا بنا دیا ہے کہ محاذ جنگ پر جاتے ہیں اور شہادت کی تمنا کرتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں اور اگر شہادت نصیب نہ ہو تو دکهی ہوتے ہیں۔۔۔

اگر یہ لوگ حقیقت میں سمجه جائیں اور سمجها دیں کہ مسئلہ کیا ہے اور یہ عزاداری کس لیے ہے اور اس گریہ کی اتنی اہمیت اور خدا کے پاس اس کا اتنا ثواب کیوں ہے؟ تو اس وقت ہمیں رونے والی قوم نہیں کہیں گے، بلکہ ہمیں انقلابی قوم کہیں گے۔۔۔

ہماری قوم ان مجلسوں کی قدر کرے، ایام عاشور اور سال کے دیگر ایام کی، یہی مجلسیں ہیں جو ملت کو زندہ رکهتی ہیں۔ اگر یہ لوگ ان کی سیاسی اہمیت کو جان جائیں تو یہی مغرب زدہ لوگ مجلسیں بر پا کریں اور عزاداری منائیں۔ اگر انہیں اپنی ملت اور اپنے ملک کی ضرورت ہو۔ میں امیدوار ہوں کہ پہلے سے زیادہ اور بہتر طورپر مجلسیں منعقد ہوں اور بڑے خطبا سے لے کر نوحہ خوان تک اس میں موثر ہیں۔

(صحیفہ امام، ج ١٦، ص ٢٠٧)

-----------------
1۔ امام خمینی(رح) کے تحریک وقیام کی طرف اشارہ ہے جو (5 جون 1963ء) سے آغاز اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام پذیر ہونے کے سبب بنا۔

ای میل کریں