عزاداری شیعہ سنی اتحاد کا مظہر: آیت اللہ خامنہ ای

عزاداری شیعہ سنی اتحاد کا مظہر: آیت اللہ خامنہ ای

البتہ شیعہ سنی دونوں کو اس بات کا خیال رکهنا چاہئے کہ آج عالم استکبار کا ہدف امت مسلمہ کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ لہٰذا اس دشمن سے دهوکہ نہ کهائیں۔

شیعہ سنی دونوں کو اس بات کا خیال رکهنا چاہئے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے عالمی استکبار کو اختلاف کی آگ بهڑکانے کا موقع ملے۔ ان مراسم میں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دوسرے فرقوں کی توہین ہوتی ہو۔ برادران اہل سنت کو اس بات کی طرف مکمل توجہ دینی چاہئے کہ آج عالم استکبار کا ہدف اسلامی امت کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے جیسے شیعہ سنی میں اختلاف۔

عزاداری کبهی بهی شیعوں سے مخصوص نہیں رہی ہے بلکہ ہر وہ مسلمان جس کے دل میں اہل بیت ؑ کی محبت رہی ہے ان کے مصائب پر غمگین اور عزادار رہا ہے۔ اور انہوں نے مختلف طریقے سے اس محبت اور عشق کا اظہار کیا ہے مرثیہ خوانی کے ذریعہ، مذہبی انجمنوں میں عزاداری بپا کر کے اور مجلس و ماتم کے دستوں کی شکل میں۔ مراسم عزا نہایت مقدس اور محترم ہیں اور ہم اپنے ملک میں ہمیشہ صحیح شکل اور پر امن صورت میں ان مراسم کے حامی اور محرک رہے ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ دوسرے ممالک میں بهی جہاں جہاں موالیان اہل بیت(ع) رہتے ہیں یہ مراسم نہ صرف یہ کہ ان کی انجام دہی میں اشکال نہیں ہے بلکہ بہت اچها ہے اور قابل قدر ہے۔

البتہ شیعہ سنی دونوں کو اس بات کا خیال رکهنا چاہئے کہ آج عالم استکبار کا ہدف امت مسلمہ کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ لہٰذا اس دشمن سے دهوکہ نہ کهائیں۔ عاشورا تاریخ اسلام کا ایک عظیم سانحہ ہے اور محرم، امام حسین علیہ السلام ان کے اصحاب با وفا اور ان کی اولاد کی شہادت کی یاد منانا ہمارا ایک اسلامی فریضہ ہے اور صرف وہی لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں کہ جو حسین ابن علی(ع) اور بزرگان دین کے ہدف سے نا آشنا ہیں یا پهر مخالف ہیں۔ عالمی استکبار شدت سے عزاداری اور عاشورا سے خائف ہے اسی لئے اس کی مخالفت کرتا ہے۔

----

اور یہاں پر اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی(رح) بهی فرماتے ہیں:

ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا باعث، ائمہ معصومین علیہم السلام اور خاص کر سید مظلومین سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزاداری کے سیاسی مراسم ہیں اور یہی چیز تمام مسلمانوں اور خاص طورسے اثنا عشری شیعوں کی ملت کی محافظ ہے۔


(صحیفہ امام، ج ٢١، ص ٤٠٠)


ای میل کریں