انقلابی اقدار میں دوام اور تسلّط کے مقابلے میں استقامت

انقلابی اقدار میں دوام اور تسلّط کے مقابلے میں استقامت

کیا گارنٹی ہے کہ حکومت اپنے ان انقلابی خصوصیات کے ساتھ مستقبل میں بھی رہے گی؟

سب سے اہم سوال جو انقلابی سماج میں اٹھایا جاتا ہے یہ ہے کہ بالفرض انقلاب کی کامیابی کے بعد کی حاکمیت مستضعف کی حامی حاکمیت ہے یا امام خمینی ؒ کے بقول محروموں اور مستضعفوں کی حاکمیت ہو تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ ایسی حکومت اپنے ان انقلابی خصوصیات کے ساتھ مستقبل میں بھی رہے گی؟

امام خمینی ؒ کے نزدیک افسرشاہی حکومت میں شامل شخص کو مستضعف اور محروم طبقہ کا احساس نہیں ہوسکتا۔ درحقیقت اس مفہوم کا ان کو ادراک ہی نہیں ہوسکتا۔ آپ کی نظر میں جو بھی عیش اور دولت کے ڈھیر پر پلا بڑھا ہو جس نے ناز ونعمت میں زندگی گزاری ہو وہ یا تو محرومیت کو بالکل سمجھ ہی نہیں سکتا یا اس کی حرارت کو بہت دور سے محسوس کرتا ہے اگر ایسا ہے جن لوگوں کے پاس طاقت یا کوئی عہدہ ہے وہ کس صورت میں استکبار کا حصہ نہیں بنیں گے؟ یعنی ان میں شاہایہ خو نہ پنپے گی یا دوسرے لفظوں میں اونچے طبقے میں تبدیل نہ ہوجائیں گے اور اپنے لئے امتیازی حقوق کے قائل نہیں ہوں گے۔

امام خمینی ؒ اس خطرہ کو محسوس کرتے تھے چونکہ غیر مذہبی نظام یا مذہبی لیکن غیر حقیقی نظام میں صاحبان منصب اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور یر پھر کمیونسٹ انقلاب میں عوام اور محروم جماعت کے نام پر حکومت حاصل کرتے ہیں لیکن جب اقتدار ہاتھ لگ جاتا ہے تو عوام کو فراموش کردیتے ہیں اسی وجہ سے امام خمینی ؒ نے تاکید فرمائی ہے کہ وسائل کی تقسیم اور عہدوں کو سپرد کرنے میں معیار امتیاز الٰہی ہونا چاہئے نہ کہ انسانی روش، چونکہ ملک کے تمام عہدیداروں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ معیار کے تقدم میں خدا کی راہ میں جہاد وتقوا سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی لذا عہدہ ومنصب کی تقسیم وسائل سے استفادہ کرنے میں امتیاز ملک کو چلانے کے انتخاب اور تمام رسموں، مادی ونفسانی ترجیحات کی جگہ اسی الٰہی معیار اور اقتدار کو پیش نظر رکھنا چاہئے، خواہ ہم جنگ کی حالت ہوں یا صلح کی حالت میں خواہ آج خواہ کل۔ اس کے علاوہ، صعوبتیں برداشت کرنے والوں، محاذ جنگ پر جانے والوں اور جن کے عزیز قید، لا پتہ یا زخمی ہوئے ہیں ان کے مفادات، الغرض یہ کہ ناداروں، غربت کی زندگی گزارنے والوں، کمزوروں کے مفادات، کوٹھیوں اور محلوں میں عیش کی زندگی بسر کرنے والوں اور جہاد، محاذ، تقوا، اسلامی نظام سے گریزاں افراد کے مفادات پر ترجیح رکھتے ہیں اور نسل در نسل سینہ در سینہ شرافت اور جنگ غربت، بے نیازی اور مقدس تحریک میں سرعت پیدا کرنے والوں کی ساکھ محفوظ رہے، یہ کوشش ہونی چاہئے کہ نو وارد اور دین کو دنیا کے عوض فروخت کرنے والے لوگ کفر کو مٹانے اور غربت کا خاتمہ کرنے والے ہمارے انقلاب کے روشن چہرے پر کالک نہ لگاسکیں اور احکام خدا سے بے خبر عیش پرستوں کی حمایت کرنے کا الزام نہ لگا سکیں اور وہ افراد جو کوٹھیوں میں بغیر کسی درد ورنج کے عیش کوشی میں مشغول ہیں اور انقلاب کے محکمہ ستون برہنہ پا محروموں کی مصیبت، جانفرسا مصائب سے بے خبر صرف واقعات کے تماشائی رہے ہیں اور اس کی تپش کو دور سے بھی محسوس نہیں کیا ہے ان تک کلیدی منصب نہیں پہنچنا چاہئے اس لئے کہ اگر ان کا اس جگہ قدم پہنچ گیا تو ممکن ہے ایک ہی شب میں انقلاب کو بیچ ڈالیں''۔ (صحیفه امام، ج ٢٠، ص ١١٠)

امام خمینی ؒ کے لہجہ کی صراحت اور پیغام کی شفافیت اس جگہ پوری طرح ظاہر ہے اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں پایا جاتا۔ صرف وہ شخص انقلابی اقدار کو دوام عطا کرسکتا ہے جو انقلاب اور جنگ کے مسائل کی بھٹی میں کندن بن چکا ہو۔ پیغام سے یہ معنی بھی اخذ ہوتا ہے کہ عہدیداروں کو عشرت کدوں میں زندگی نہیں گزارنا چاہئے اور لوگوں کی مصیبت اور تکلیف سے بے خبر نہیں ہونا چاہئے اور جہاد کے ساتھ تقوا ہونا پائیدار اصول ہے۔

لیکن وہ سوال جس کا جواب ابھی ہی باقی ہے وہ یہ کہ حکام اور انقلابیوں کی دوسری نسل جو مشکلات انقلاب سے دو چاہو نہیں ہوئی اگر وہ حاکم ہوگئے تو ان کو کونسی چیز روکے گی؟ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے منصب سے ناجائز فائدے نہ اٹھائیں گے؟ اس کے متعلق امام خمینی ؒ کی نظر میں ہر چیز سے پہلے خدا کے اوپر اعتقاد کارساز ہے لیکن خدا کے اوپر ظاہر وباطن اول وآخر ایمان اس طرح ہو کہ عقل سے آدمی کے تک پہنچے کیونکہ ممکن ہے کہ عقل کسی حقیقت کے متعلق اپنی رائے قائم کرلے لیکن دل راضی نہ ہو۔

دوم: علماء اور حکام اس وقت محروموں کے حامی ہوں گے جب: ١/ سادہ زندگی گزارنے اور زہد کو شعار بنانا نہ بھولیں۔ ٢/ روحانیت کے دائرے سے خارج نہ ہوں۔ ٣/ زرق وبرق دنیا اور اس کی آرائش سے پرہیز کریں اس لئے کہ یہ روحانیت کی شان کے خلاف اور اسلامی جمہوریہ کے نظام کیلئے نامناسب ہے۔ ٤/ عیش طلبی اور دنیا کے حصول کو اپنا پیشہ نہ بنائیں۔ ٥/ عوام کی خدمت کریں اور ان کی خوشی وغم میں شریک رہیں۔ ٦/ غریب لوگوں کے ساتھ نشست وبرخاست رکھیں اور امراء سے دوری اختیار کریں۔٧/ کمزوروں کے حامی ہوں۔ ٨/ بیت المال اور اپنے منصب کا غلط استعمال نہ کریں۔ ٩/ اسلام سے ناجائز فائدے نہ اٹھائیں۔

امام خمینی ؒ فرماتے تھے:'' اسلام جیب بھرنے کا ذریعہ نہیں ہے''۔ ١٠/ عوام کے سامنے رعونت سے پیش نہ آئیں اور امام خمینی ؒ کو ٹیلی ویژن پر زیادہ دکھایا گیا تو آپ نے ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر کو اس سے منع کیا۔ ١١/ سادہ وسائل استعمال کریں مثلاً جب حکام کی جان کی حفاظت کا مسئلہ اٹھا تو آپ نے تاکید فرمائی کہ لگژری ساخت کار کی نسبت پیکان آپ لوگوں کی جان کی زیادہ حفاظت کرے گی۔

سوم: یہ ساری باتیں ممکن نہیں ہیں سوائے اس کے کہ آدمی حبّ نفس اور حبّ دنیا کو دل سے نکال دے اور منصب ومقام کو دائمی اور قیمتی نہ سمجھے اور قدرت رکھتے ہوئے خود کو عاجز شمار کرے چپکانہ رہے۔ امریکی صدر کی طرح نہ ہو کہ اقتدار ہاتھ سے نکلنے کے بعد شدید افسردگی کا شکار ہوجائے۔ (صحیفه امام، ج ١٩، ص ١٨٨، ١٨٩)

چہارم: عوام اور اسلامی انجمنیں حکام کے رفتار وکردار کی نگرانی کریں، امور میں شریک رہیں رکھیں اور امر بالمعروف کرنے سے گریز نہ کریں۔

ای میل کریں