ملک میں ہوںے والے موجودہ حوادث سے متعلق انقلاب اسلامی ایران کے عظیم الشان رہبر امام خامنہ ای کی تقریر کے بعد یادگار امام سید حسن خمینی نے ایک بیان شائع کیا۔
جماران کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی کے بیان کا مضمون مندرجہ ذیل ہے:
بسمہ تعالی
میں "ان ناگفتہ بد حالات" کے رونما ہونے کے بارے میں اس سے پہلے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن معاشرہ کے پرآشوب حالات کے مد نظر مناسب وقت کا منتظر تھا لیکن اس دن رہبر معظم انقلاب نے ان حوادث کے بارے میں سب سے اظہار نظر کی درخواست کی لہذا میں نے چند جملے لکھنے کی کوشش کی۔
1. بلاشبہ "اعتراض" جو کہ ہر شہری کا قانونی ہے اور "اغتشاش" جس کی جڑ لوگوں کے دشمنوں کی سازشوں میں پوشیدہ ہے کے درمیان فرق ہے، اعتراض معاشرہ کے حیات کی علامت ہے کہ بعض مشکلات کو قبول نہیں کرتا لیکن فتنہ و فساد (وہ بھی ایسے وقت میں جب ذرائع ابلاغ جو ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی کرنے سے خالی ہے) کا نتیجہ شدت پسندی اور جابرانہ حاکمیت یا ہرج و مرج کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم فراموش نہ کریں کہ ذرائع ابلاغ ہمارے درمیان تفرقہ اور اختلاف ڈالنے کے درپئےہیں یا مکمل طور پر ہم سے دشمنی کرتے ہیں یا پھر اس جگہ سے انجیکٹ ہوتے ہیں جو ایران اور ایرانیوں کو کمزور اور بدحال دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارے پاس ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ اور ایک ساتھ ہو کر زندگی گذارنے کے کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہم سب خواہ سلیقہ اور نظریہ کوئی بھی ہو، ایک ملت ہیں۔ سلیقے الگ الگ ہیں لیکن سب کا مقصد ایک ہے۔ ہمارے ملک کی سربنلدی، صلح آمیز زندگی کے ساتھ اور ان کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں ہے جو ہمیں ذلیل اور رسوا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں آپس میں گفتگو کرنی چاہیئے، پارٹیاں لوگوں کے ساتھ ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ حکومت کرنا جن کا زاویہ فکر دوسرا ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ دین اور جو کچھ لوگوں کی نظر میں دینی اقدار کے عنوان سے پہچانا گیا ہے آزادی اور عیش و عشرت سے جنگ کی طرح ہے۔
2. گفتگو ہی معاشرہ کی سرگردانی دور کرنے کا واحد راستہ ہے۔ واضح ہے کہ ہم لوگ ایک طرح کے اعتراض کا سامنا نہیں کررہے ہیں بلکہ متعدد موقعوں پر چھوٹے اور بڑے گروہ الگ الگ سلیقہ کے ساتھ ممکن ہے سیاست یا رفتار پر معترض ہوں، اس معاشرہ میں خواہ اعتراض کرنے والے ہوں یا اہل سیاست اور حکومت ہوں، سب با ہم بیٹھ کر گفتگو کریں اور اصلاح کی معقول ترین راہ نکالیں۔
اگر ایک طرف سخت اور خصومت آمیز نعرے دے فائدہ نہیں دیتے لیکن پورا نظام قوم و ملت کے مختلف دھڑوں سے گفتگو ان کا درد سنے اور اگر ضروری ہوا تو ان سے معذرت کرے (کہ مدتوں سے اس پر توجہ نہیں رہی ہے) اور اس طریقہ کی تعلیم دے۔
واضح ہے کہ اس گفتگو کا نتیجہ (بعض روشوں اور اقدار میں) نہ نرمی ہوگا اور نہ ہی بطور مطلق شدت پسندانہ اور بنیاد شکن ہوگا اور اسی گفتگو سے نرمی اور شدت کا معیار اندازہ ہوگا۔
3. اس وقت مختلف مسائل ہیں جو لوگوں کو تکلیف دے رہے ہیں اور ان کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم معاشی اور اقتصادی مشکلات ہیں۔ دیگر شعبوں میں مشکلات کا حل اقتصاد کی اصلاح میں پوشیدہ ہے۔ ارباب حکومت جان لیں کہ اگر وہ اقتصادی مشکلات کو حل نہیں کرسکتے تو ہمیشہ فتنہ انگیزوں اور اغیار کے سوء استفادہ کی راہ موجود ہے۔
4. بہت سارا اعتراض لوگوں کا دغدغہ ہے جو اعتراض کی قانونی راہ کے بند ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو بعض قوانین میں تبدیلی اور سیاست بدلنے کی ضرورت ہے۔ بیشک ارکان حکومت میں تمام سلیقوں کے شرکت کی راہ دشمنوں کے منہ پر طمانچہ ہوگی۔ لہذا امریکہ، غاصب اسرائیل اور ان کے ہمنوا کے ہاتھوں کو کاٹنے کے لئے قانون گذاری اور اجرائی امور میں تمام سلیقوں کا راستہ کھلا رکھیں۔
5. خود رہبر انقلاب اسلامی، قانونی اور حقوقی مقام و منصب کے علاوہ ممتاز اخلاقی خصوصیات کے بھی مالک ہیں اور اپنے زمانہ کے بے نظیر انسان ہیں۔ ان تمام لوگوں کے لئے جو رہبر معظم کو دور یا نزدیک سے جانتے ہیں، خاص احترام رکھتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت ان کا اس درجہ احترام کرتی ہے کہ ان کی توہین ہر طرح کی گفت و شنید کے لئے مانع ہوگی۔ اس کے علاوہ تمام سیاستدانوں کے لئے یقینی امر ہے کہ ان کے صحت و سلامتی ملک کی امنیت اور فلاح و بہبود کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔
6. جمہوری اسلامی پاکیزہ خون کا نتیجہ ہے جنہوں نے خدا کے لئے اور امام عظیم الشان کی پیروی کرتے ہوئے، لوگوں کی خوش نصیبی کے لئے زمین پر بہایا ہے۔ لہذا اس کی حفاظت اور اصلاح کرنا اور اعتراض سے چشم پوشی نہ کرنا اور اصل حقیقت کا دفاع کرنا ان تمام لوگوں کا فریضہ ہے جو خود کو اس بے نظیر واقعہ ذمہ دار جانتے ہیں۔
ہم آخر میں اس حادثہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لئے خدا سے رحمت و مغفرت طلب کرتے ہیں اور زخمی افراد کی صحت و سلامتی کی آرزو کرتے ہیں۔ امن و امان کے محافظین کے لئے توفیق اور لوگوں کے لئے بہتر اور سرور انگیز دنوں کی درخواست کرتے ہیں اور جو کچھ گزشتہ رات شریف یونیورسٹی میں رونما ہوا، افسوسناک ہے لہذا وہاں کے ذمہ داروں سے زیادہ سے زیادہ رعایت کے ساتھ اس کی حرمت کا خیال رکھنے کی امید کرتے ہیں۔
والسلام
سید حسن خمینی