حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر علی کمساری موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) کی 34/ ویں سالگرہ کے موقع پر کہا:
اس وقت کہ ہمارے مخاطب وہ لوگ تھی جنهوں نے امام کو دیکھا تھا اور نزدیک سے جانتے تھے اور امام کی باتیں سنتے تھی اور اپنے پورے وجود کے ساتھ ان کے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن آج کے مخاطب نے امام کو دیکھا نہیں ہے اور اس وقت 54/ فیصد افراد ایسے ہی ہیں جو امام کی رحلت کے بعد پیدا ہوئے هیں۔
انہوں نے کہا: ملک کے اندر مثبت اور منفی دونوں رخ سے امام کی طرح کوئی شخصیت نہیں ہے و دوست ہیں وہ دوستی کے عنوان سے امام کے فضائل و کمالات بیان کرتے اور جو دشمن ہیں وہ تخریب اور دشمنی کے عنوان سے امام کا ذکر کرتے اور نقائص نکالتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر کمساری نے کہا: اس وقت ہماری ذمہ داری جوانوں اور نوجوانوں اور اسی طرح دیگر سوال کرنے والوں کو مطمئن اور قانع کرنا ہے نہ صرف اپنا وظیفہ جان کر مخاطب سے گفتگو کرنا۔ اس کے لئے ہمیں ہم زبان اور ہم دل ہونا ہوگا اور دشمن کی ہر سازش کو جاننا اور اس کا جواب دینا ہوگا اور اسے ناکام بنانے کے لئے تدبیریں کرنی ہوں گی۔ ہ سب مل کر دوست اور دشمن کے سوالوں کا جواب تلاش کریں اور سنجیدگی کے ساتھ جواب دیں
یاد گار امام آیت الله سید حسن خمینی نے اس موقع پر کہا: ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے نہیں رہنا چاہیئے کہ امام کے دشمن ہر دن ایک نیا عنوان اور موضوع نکالیں اور امام کی شخصیت و فعالیت پر سوال اٹھائیں۔ ہمیں جواب دینے کی تیاری کرنی چاہیئے اور آئندہ اس کی سندوں کو اکھٹا کریں۔
انہوں نے کہا: موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح)، جمہوری اسلامی کی عظیم مصلحتوں کے حدود میں اپنے کام کو آگے بڑھا رہا ہے کیونکہ حضرت امام کی سب سے بڑی میراث "جمہوری اسلامی " ہے اور یہ ادارہ جمہوری اسلامی کے اصول کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ بلا شبہ جمہوری اسلامی کی مکمل شناخت امام خمینی (رح) سے وابستہ ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی (رح) کو اسلامی معاشرہ کی روح کہا ہے۔
سید حسن خمینی نے کہا: امام خمینی (رح) تاریخ کے محبوب ترین رہبر ہیں اور ہمارا انقلاب صدی کا سب سے بڑا عوامی انقلاب نہیں ہے بلکہ تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب ہے، امام اس صدی کے محبوب ترین انسان نہیں ہیں بلکہ تاریخ کے رہبروں میں محبوب ترین فرد ہیں۔ جمہوری اسلامی کی ساری پہچان امام ہیں اگر اس سے امام کا نام نکال دیں گے تو پوری عمارت گر جائے گی اور اس سلسلہ میں جس طرح امام سب کے لئے تھے اسی طرح یہ موسسہ بھی سب کا ہے۔ لہذا سب کی ذمہ داری ہے کہ امام کی تحریک اور امام کی نسبت دشمنی کو روکنے پر کام کیا جائے لیکن تحریف سے بچتے ہوئے۔
ملک اور اس نظریہ سے امیدوار بنانا سب کا فرض ہے۔ اس وقت جمہوری اسلامی میں سارے لوگ امید دلانے اور اسے قوی کرنے میں حساس ہوں۔ ممکن ہے هزار وہ اشکال ہوئی اور ہے لیکن ناامیدی سے ہم کچھ کر نہیں سکتے۔
ایک ہم عصر معروف فلسفی نے بہت ہی عمدہ جملہ کہا ہے: میں یہ نہیں کہتا کہ جو بھی امید رکھتا ہے وہ نتیجہ حاصل کرتا ہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جو بھی نا امید رہا ہے وہ کہیں نہیں پہونچ سکا ہے۔ امید دلانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مشکلات اور مسائل سے چشم پوشی کرلیں۔ پھر بھی سب مل کر اس ملک اور اس فکر کو آگے بڑھائیں اور ملکی مشکلات کا سد باب کریں۔
اس کے علاوہ انہوں نے اس موسسہ اور اس کے کارکنوں کی خدمات کو سراہا اور آئندہ بہتر کرنے کی صلاح دی اور سب کی تشویق و حوصلہ افزائی کی۔