یاد خدا
امام خمینی (رح) سیاسی اور جمہوری اسلامی ایران کے بانی اور رہبر ہونے سے پہلے ایک فقیہہ، فلسفی، عارف اور معلم اخلاق تھے۔ موجودہ نوشتہ میں آپ کے اخلاقی اور تربیتی لبریز دریا کا ایک قطرہ ہے۔ امید ہے کہ اس عالم با عمل کی پند و نصیحت مفید ہو۔
جو چیز انسان کی نجات اور دلوں کے سکون کا باعث ہے۔اس کا کمال اور اس کے دنیا و ما فیھا سے قطع تعلق ہے جو چیز خدا کے دائمی ذکر اور یاد سے حاصل ہوتا ہے۔ جو لوگ کسی طرح سے فضیلت و برتری کے خواہاں ہیں خواہ علوم میں (یہاں تک کہ علوم الہی میں) ہو یا پھر اقتدار، شہرت اور دولت میں ہو، لوگ اپنے رنج و الم کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مادی قیود سے آزاد افراد جنہوں نے خود کو ابلیس کے جال سے کسی حد تک نجات دے رکھی ہے اسی دنیا میں سعادت اور بہشت رحمت میں ہیں۔ (صحیفہ امام، ج 18، ص 150)
خداوند عالم قرآن کریم کے سورہ رعد میں ارشاد فرماتا ہے۔ آگاہ ! ذکر الہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ امام خمینی (رح) کے عارفانہ نقطہ نظر سے خدا کی جانب توجہ بلند و بالا مقام کی حامل ہے، کیونکہ یہ خود ہی بہت سارے نیک کاموں کی راہ ہموار کرتی ہے اور بہت سارے گناہوں کے ترک کرنے کا موجب ہوتا ہے اور انسان کو غفلت سے دور کرتی ہے۔ اس (الله) کی جانب سے غافل نہ رہو وہ تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے۔ آپ کی دنیا کے لئے، آپ کی آخرت کے لئے۔ خدا کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ دل اگر مطمئن ہونا چاہے کہ بہترین نعمت یہ ہے کہ انسان مطمئن ہو۔ اس وقت آپ یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ آپ مجھ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی میں آپ سے ڈرتا ہوں، ہم سب بھائی ہیں۔ یہ "اطمینان" ہے۔ (صحیفہ امام، ج 10، ص 155)
پوری زندگی میں انسان کے لئے نامساعد اور ناگفتہ بد حالات پیش آتے ہیں جو اضطراب اور پریشانی کا باعث ہوتے ہیں اور افراد کے دل میں تزلزل ایجاد کردیتے ہیں بالخصوص اس وقت جب سخت اور دشوار حالات کا سامنا کرتے ہیں اور اپنی توائی کھودیتے ہیں، صرف اس کا خداوند عالم پر تکیہ رہتا ہے کیونکہ وہ اسے اپنے تمام امور پر ناظر دیکھتا ہے اور ہر کام میں معاون و مددگار سمجھتا ہے۔ جس چیز انبیاء (ع) کو دشوار اور سخت کاموں میں مدد کی اور کبھی انہیں خستگی کا سامنا نہ ہوا وہ "خدا" ہے۔
انسان کا کمال بلندترین مرتبہ تک پہونچنا ہے کہ کبھی انسان تصور کرتا ہے کہ جتنا بلند سے بلند تر دنیاوی مقام کا حامل ہوگا اتنا ہی زیادہ خوش قسمت ہوگا جبکہ جو بھی حاصل ہوتا ہے اس سے سکون نہیں ملتا۔ اگر ساری دنیا، سارے کہکشانوں، تارے اور سیاروں کو ایک انسان کے اختیار میں دے دیا جائے پھر بھی اسے سکون نہیں ملے گا۔ اس لئے کہ یہ کمال مطلق نہیں ہے۔