رسولخدا (ص) کی عبادت
حضرت رسول اسلام (ص) نے اس درجہ ریاضت کی اور حق کے لئے قیام کیا ہے کہ آپ کے پاؤں ورم کر جاتے تھے اور خدا کی طرف سے آیت نازل ہوئی ہے۔ ہم نے قرآن کریم خود کو زحمت میں ڈالنے کے لئے نازل کیا ہے۔ (شرح چہل حدیث، ص 176)
خلقت کا ایک راز بندوں کے عبادت ہے کہ یہ خلقت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے جیسا کہ صراحت کے ساتھ خود قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے؛ "ہم نے جن و انس کو صرف عبادت و بندگی کے لئے پیدا کیا ہے" عبادت و بندگی کی عظمت کے لئے اتنا ہے کافی ہے کہ جن و انس خداوند عالم کی عبادت اور بندگی کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور یہ اولیائے الہی کی مسجد ہے۔ اگر قدر شناس بندہ ہوگا تو وہ کبھی خدا کی عبادت سے منہ نہیں موڑے گا اور ہمیشہ وہ اپنے خالق کی طرف دست سوال بلند کئے رہے گا۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جو چیز باقی رہنے والی ہے اور انسان کو ابدیت سے جوڑنے والی ہے وہ عبادت و بندگی ہے؛ کیونکہ انسان عبادت کے وقت مبدا عالم سے متصل ہوتا ہے اور اس کی ساری امید خداوند عالم ہوتا هے اور اس کی نظر کائنات کے مالک و رازق اور اس کی ازلیت و ابدیت پرٹکی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے مقام پر امام خمینی (رح) "عوالی اللئالی، ج 1، ص 324" کی ایک حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
رسولخدا (ص) کی بعض ازواج سے نقل ہوا ہے رسولخدا (ص) ہم سے گفتگو کررہے اور ہم لوگ آپ سے اور جب نماز کا وقت آگیا تو گویا آپ ہمیں پہچان نہیں رہے تھے اور کہ ہم لوگ آپ کو کیونکہ خدا کی جانب توجہ کی وجہ سے ہر چیز سے منہ موڑ لیا تھا۔ (آداب الصلوة، ص 111)
اولیائے الہی اگرچہ لوگوں کے درمیان لوگوں کے لئے ہیں لیکن ایک آن کے لئے بھی یاد الہی سے غافل نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی کا سب سے شیرین لمحہ خدا کی عبادت اور اس سے رابطہ ہوتا ہے۔
ایمان اور عمل صالح کے ہمراہ، ثابت قدمی اور پائیداری اللہ کے رسولوں کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اور یہ سب کچھ اللہ سے امید لگائے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان ہستیوں نے غیر اللہ سے منہ موڑ لیا ہے اور عالم میں ہر جگہ خدا کا جلوہ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔ جو چیز اس دنیا میں سب کے لئے نشاط اور وابستگی پیدا کرتی ہے اس سے یہ لوگ دور رہتے ہیں۔ اس لئے ان ہستیوں نے ان سب سے دوری اختیار کرلی ہے۔ قرآن نے بار بار رسولخدا (ص) سے خطاب کرکے فرمایا ہے: ہم تم لوگوں سے اجر و ثواب کے خواہاں نہیں ہیں ہمارا اجر خدا کے پاس ہے۔
یہ آیات بتا رہی ہیں کہ دوسروں سے اجر و ثواب کی امید لگانا انسان کو اس سے وابستہ کردیتی ہے اور یہ ذلت و خواری ہے۔ انسان حر اور آزاد ہے۔ یہ ایک سب سے ناطہ رشتہ توڑ کر خدا سے وابستہ ہے۔ اس طرح سے انبیائے الہی نے کبھی خستگی کا احساس نہیں کیا اور لوگوں کی بے توجہی سے کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے اور سب کے لئے رحمت الہی بنے رہے اور معاشرہ کے سب سے نچلے طبقے کے برابر کی زندگی گذارتے اور عبادت و بندگی میں تمام لوگوں سے آگے تھے۔ ان ہستیوں کی روح بلند اور عالم بالا سے تعلق رکھتی تھی اور دنیا کو خدا کی مہمانی کا مہمان خانہ جانتے تھے اور غیر خدا کو اپنی زندگی اور فکر سے الگ کر چکے تھے۔
جیسا کہ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: جو چیز انسان کو خدا کے مہاں خانہ میں آنے کا راستہ دیتی ہے وہ خدا کے علاوہ سے قطع تعلق اور منہ موڑنا ہے، اور یہ ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے۔ صرف گنے چنے افراد ہی کے لئے ممکن ہے کہ ان سب کے سربراہ رسولخدا (ص) ہیں اور وہ مبدا نور کی جانب قلبی توجہ اور اس کے ماوراء سے اعراض اور دوری ہے۔ (صحیفہ امام، ج 17، ص 490)