قاسم سلیمانی اور ابومھدی کا قتل امریکی شکست، بوکھلاہٹ اور حماقت کی علامت ہے
اسلام ٹائمز۔ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے امریکی ہوائی حملے میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابومھدی المھندس اور انکے ساتھیوں کی شہادت کے حوالے سے خطاب کیا۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ آج ہم نے اسلامی مزاحمتی محاذ کے عظیم کمانڈرز یعنی جنرل قاسم سلیمانی اور ابومھدی المھندس کو خراج شہادت پیش کرنے کیلئے یہ تقریب منعقد کی ہے جبکہ انکی شہادت کا یہ واقعہ نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔
سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس جمعے کے روز جنرل قاسم سلیمانی جو اپنی جوانی کے وقت سے ہی ہمیشہ شہادت کی آرزو میں تھے اور اپنے عزیز دوست ابومھدی المھندس کے ہمراہ ہمیشہ گولیوں اور بمباری سے پُر جنگی میدانوں میں ہمیشہ حاضر رہتے تھے، اپنی آخری آرزو کو پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں انکے عظیم خاندان اور رشتہ داروں، خصوصا انکی اہلیہ محترمہ اور عزیز بیٹی کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ کے والد گرامی نے اپنی دیرینہ آرزو کو پا لیا ہے کیونکہ انکی یہ آرزو انکا مقصد ہی نہیں بلکہ انکا عشق بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابومھدی المھندس بھی جب آخری مرتبہ ضاحیہ آئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ داعش تقریبا ختم ہو چکی ہے اور جس نے بھی شہید ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ میں بھی شہادت جیسی عاقبت سے ہمکنار ہو جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ میں انکی اہلیہ محترمہ اور بیٹیوں سے بھی یہی کہوں گا کہ وہ اپنی آرزو کو پہنچ گئے جبکہ ہم آپ کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔
سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے اسلام میں شہادت کے مقام کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تہذیب اور ایمان میں شہادت دو نیک امور میں سے ایک ہے (فتح یا شہادت)۔ انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں وہ بہترین مقام جس تک ہم پہنچ سکتے ہیں، شہادت ہے تاہم ہمارے خلاف وہ بڑے سے بڑا کام جو دشمن انجام دے سکتا ہے، یہ ہے کہ وہ ہمیں قتل کر دے جبکہ شہادت ہمارے لئے اعلی ترین ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں شہید کمانڈرز اور انکے ساتھیوں کے جسم ایسے پاش پاش ہو کر گھل مل گئے تھے کہ انکے درمیان تمیز کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس امریکی اقدام کی ماہیت کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وزارت دفاع نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ امریکی صدر نے ذاتی طور پر اس کارروائی کا حکم دیا تھا لہذا آج ہم ایک واضح اور روشن جرم کیساتھ روبرو ہیں کیونکہ وہ جس نے حکم صادر کیا تھا، خود اقرار کر رہا ہے کہ میں نے یہ جرم انجام دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ کوئی مبہم دہشتگردانہ کارروائی نہیں جس پر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہو بلکہ امریکی وزارت دفاع، فوج اور امریکی صدر کھلم کھلا اس جرم کے ارتکاب کا اعتراف کر رہے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے علی الاعلان قتل کے سبب کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانیکی تمامتر امریکی سازشیں چاہے وہ کرمان میں انکے حسینیہ کے قریب گھر لے کر بمب نصب کرنے کی کارروائی ہو جس میں چار پانچ ہزار کے قریب لوگوں کی شہادت کا خطرہ تھا، یا کوئی اور کارروائی، سب ناکام ہو چکی تھیں لہذا اس مرتبہ امریکہ نے انہیں سرعام شہید کرنے کو انتخاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسکی دوسری وجہ خطے میں امریکہ کی مسلسل شکستیں، اسلامی مزاحمتی محاذ کی مسلسل فتوحات، عراق کی بدلتی صورتحال اور امریکی صدارتی انتخابات کی نزدیکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخاب کے دو تین سالوں کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا لیکن اس تمامتر عرصے میں خارجہ سیاست خصوصا اس خطے اور اسکی عوام کے حوالے سے ٹرمپ نے سوائے شکست اور بوکھلاہٹ کے کیا حاصل کیا ہے؟
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ وہ پہلے دن سے ایران میں موجود نظام حکومت کو گرانا اور ایرانی میزائل پروگرام کو ختم کر کے ایرانی عوام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتا تھا جبکہ اس حوالے سے اس نے مکمل شکست کھائی ہے۔ سید مقاومت کا کہنا تھا کہ شام، لبنان، یمن اور افغانستان میں بھی ٹرمپ کھلی شکست سے ہمکنار ہوا ہے جبکہ خطے میں اسکی صدی کی ڈیل بھی بری طرح سے ناکام ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عراقی تیل کے کنووں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور جبکہ اسکا موقف یہ ہے کہ عراق میں کوئی حکومت قائم نہیں اور اگر وہاں کو حکومت قائم ہو تو بھی اُسے تمامتر سیاسی و فوجی میدانوں میں امریکی سفیر اور امریکی فوج کے احکامات کا پابند ہونا چاہئے جبکہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابومھدی المھندس داعش نامی امریکی بہانے کو ختم کرنے کے دو اصلی سبب تھے اور جب داعش ختم ہو گئی جو عراق میں امریکی موجودگی کا بہانہ تھی تو عراق کے گوش و کنار سے امریکیوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جب عراق کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی امریکی سازش پر بھی دینی مرجعیت اور عراقی حکام کی حکیمانہ تدابیر سے پانی پھر گیا تو امریکہ نے اپنی الیکٹرانک جنگ کے ذریعے عراقی و ایرانی مسلم اقوام کے درمیان فتنے اٹھانے کی کوشش کی لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اسلئے کہ ایران ہمیشہ سے عراق کی حمایت کرنے والا ملک ہے۔ انہوں نے کہا عراق کھو نہ دینے کیلئے امریکیوں نے جلد بازی میں متعدد اقدامات اٹھائے ہیں جن میں سے ایک جنرل قاسم سلیمانی اور ابومھدی المھندس کا قتل بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل جنرل قاسم سلیمانی کو اپنی موجودگی کیلئے خطرہ سمجھتا تھا۔ سید مقاومت نے کہا کہ خطے میں امریکی جہاں جاتے تھے اپنے سامنے جنرل قاسم سلیمانی کو پاتے تھے جبکہ اسرائیل اپنے وجود کیلئے جنرل قاسم سلیمانی کو خطرناک ترین شخص سمجھتا تھا لیکن انہیں قتل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے امریکہ سے چاہا کہ وہ اس کام کو انجام دے۔
اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکی اپنے اس اقدام کے ذریعے اسلامی مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جنرل قاسم سلیمانی کو آشکارا قتل کیا کیونکہ وہ اپنے پراپیگنڈے کیلئے نئے نفسیاتی موضوعات کے محتاج تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ شہید قاسم سلیمانی کی اس ٹارگٹ کلنگ کے اسباب کو جانیں کیونکہ وہ اسکے ذریعے اسلامی مزاحمتی محاذ کو کمزور کر کے ایران و عراق کے درمیان اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں جبکہ اسکے برعکس عراقی عوام نے شہداء کے تشیع جنازے میں (ملین ھا کی تعداد سے شرکت کر کے) اور عراقی پارلیمنٹ نے بھی (امریکی انخلاء کی قرارداد منظور کر کے) اپنا جواب دیدیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں عراقیوں کو جانتا ہوں، حسینی مجاہدین اور عباس علمدار علیہ السلام کے فرزند عراق میں کسی ایک امریکی کو بھی باقی نہیں چھوڑیں گے کیونکہ جنرل قاسم سلیمانی اور حاج ابومھدی المھندس کی شہادت کا چھوٹے سے چھوٹا جواب عراق سے امریکی افواج کا انخلاء اور امریکی قبضے سے اس ملک کی نئی آزادی ہے۔
سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو اسلامی مزاحمتی محاذ کا سید الشہداء قرار دیتے ہوئے انکی اور انکے ساتھیوں کی مظلومانہ شہادت کے عادلانہ قصاص کے لئے جانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ عادلانہ قصاص کا مطلب یہ ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرم واضح ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے کسی ایرانی شخصیت یا ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہوتا تو ہم کہتے کہ یہ معاملہ ایران کیساتھ مربوط ہے وغیرہ لیکن یہاں بات قاسم سلیمانی کی ہے، قاسم سلیمانی صرف ایران کیساتھ متعلق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی یعنی؛ ایران، لبنان، شام، افغانستان، یعنی تمام کی تمام امتِ مسلمہ۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران جانتا ہے کہ وہ کیسے اسکا جواب دیگا لیکن یہ بات ہمارے کندھوں پر موجود ذمہ داری کو کم نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے 40 سال جنکی حمایت کی ہے، ان سے اب کچھ طلب نہیں کیا لہذا وہ خود فیصلہ کر لیں کہ کس طرح سے انتقام لینا ہے، کیونکہ ایران اپنے عظیم ترین افتخار اور سب سے بڑے جنرل کو کھو دینے پر سوگ کی حالت میں ہے۔ سید مقاومت نے عادلانہ قصاص لئے جانے کے بارے میں کہا کہ خطے میں موجود امریکہ کے تمامتر فوجی اڈے، جنگی بحری بیڑے اور فوجی اس قتل کا عادلانہ قصاص ہیں کیونکہ یہ امریکی فوج ہی ہے جس نے ان شہداء کو قتل کیا ہے لہذا امریکی فوج کو ہی اس کا تاوان بھی ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قصاص سے ہماری مراد امریکی شہری یا امریکی خبرنگار ہرگز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنرل قاسم سلیمانی اور ابومھدی المھندس کے قتل کا انتقام نہ لیا گیا تو یہ تمامتر مزاحمتی محاذ، اسکے اراکین، مسئلۂ فلسطین، مسئلۂ قدس اور پورے کے پورے خطے کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔
سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں خطے سے امریکی انخلاء کا فارمولا دیتے ہوئے کہا کہ جب امریکی افسروں اور فوجیوں، جو خطے میں تو عمودی حالت میں آئے ہیں لیکن واپسی پر افقی حالت میں لوٹیں گے، کے تابوت امریکہ واپس پہنچیں گے تو تب ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھ آئے گی کہ اس نے کیا کام انجام دیا ہے اور پھر انتخاب میں بھی وہ کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمتی محاذ میں ہمارا مقصد یہی ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی اور ابومھدی کے خون کا قصاص خطے سے تمامتر امریکی فورسز کا انخلاء ہے اور ان شاء اللہ یہ عنقریب ہو کر رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ جس دن امریکہ کو خطے سے نکال باہر کر دیا جائیگا اسی دن یہ صیہونی بھی اپنے بریف کیسز اٹھا کر خطے سے نکل جائیں گے اور ہمیں اس مقصد کیلئے مزید کسی جدوجہد کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔