زندہ شہید
تحریر: سید توکل حسین شمسی
مجاہدانہ زندگی، شجاعانہ شہادت، سردار قاسم سلیمانی اپنی دلی آرزو کو پہنچے۔ بقول ان کی بیوہ کے صحراؤں و بیابانوں میں شہادت کا متلاشی، آخر قاسمانہ انداز میں آغوش شہادت میں جا پہنچا، لیکن استکبار کے منہ پر پنجہ گاڑنے کے لئے ہاتھ، کف عباس کی مانند چھوڑ گیا۔ بچپن میں صدائے ابراہیمی پر لبیک کہتے ہوئے قربانی کا اہتمام تھا کہ ماں نے ایک ظرف دیا اور فرمایا تھا کہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر نہ جانے پائے، اس میں اکٹھا کرنا اور جامن کے شجر کی کیاری میں ڈال دینا، وہ پھل نہیں دیتا، ان شاء اللہ پھل دار ہو جائے گا۔ حکم مادر کی تکمیل تو کر دی، لیکن اس رنگین آبیاری کا فلسفہ نہ سمجھا۔ کچھ بڑے ہوئے تو ماں کی سادگي کا گمان ہوا، لیکن اب جانا کہ وہ کربلائی مزاج تھا، جو ہماری ماؤں کو ورثے میں ملا ہے، جو ہر دور کے قاسم کو طعم شیرین شہادت کی طرف مائل کرتا ہے، جو سمجھاتہ ہے کہ قربانی کا خون، بےثمر معاشرے کو ثمرآور بناتا ہے، ایک حججی شہید ہوا، داعش گئی۔
آج سلیمانی گیا ہے، اسرائیل میں خطرے کی گھنٹیاں بجیں، طاغوت کی سپاہ میں اضطراب بڑھا، ملت تو بظاہر سوگوار ہے، آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں ہیں، راہوں میں سیاہ پرچم ہیں، لیکن یہ نرم آنسو، ابابیلوں کے پتھر بن کر ان بےلگام، طاقت میں مست فیلوں کا بھوسہ بنا دیں گے۔ یہ ننھی ابابیلوں کا لشکر، کسی حکم مولا کا منتظر ہے، ورنہ کاغذ کی کشتیاں اور پتھروں کا بار سنگین، غرق آہن و شدت خوف سے شرابور سپاہ، جون کربلائی سا پھر عشق شہادت کہاں، جو شہید رہتا ہے، وہی تو شہید ہوتا ہے۔ ان مکار لومڑوں میں، پھر وہ جذبہ اشتر کہاں، اسی لئے تو تہہ ظرف میں زہر کھولتے ہیں، شب خون مارتے ہیں، پشت سے وار کرتے ہیں، صداموں کا کیا ہوا، قذافی کہاں گئے، لادن و بغدادی، پھر داعشی، کتنے طالب، ہالی وڈ کا تماشا ہے گویا۔
جس میں چند دن ہیرو، پھر ولن، دہشت گرد بنے کس نے ان کو مسیحا بنایا، کسی نے ان کو خطرہ بشر جانا اور پھر ان کی لاشوں کو گہرے سمندروں میں ڈالا، اب بس وہی رہ گئے، جو ہر چیخ پہ خاموش ہیں، جو شیطان کے ہمدوش ہیں، جو پتھروں کے ابلیسوں کے لئے کنکریاں دیتے ہیں، خود ابلیس زندہ سے ہاتھ ملائے، امت مسلمہ سے روٹھے ہیں۔ عنقریب ان پر وہی سیاست، وہی تاریخ دھرائی جائے گی، قاسم تو تقسیم ہوا، لیکن شجرہ مقاومت کی ایسی آبیاری کر گیا کہ اب اس کا ثمر و سایہ، کتنے ملکوں کے نصیب بدلے گا، کتنے جوانوں کی راہوں میں چراغ جلائے گا، مقاومت کا دائرہ کار بڑھائے گا۔ جس کو ایک ملک کی سرحد میں دبانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی، اب اس نے کتنے لڑکھڑاتے پرچموں کو سہارا دیا اور وہاں مقاومت کی نئی بستیاں بسا دیں، اب بھی وقت ہے، کچھ احمق اپنی حماقتوں سے باز آجائیں، اپنی جنونیت کو لگام دیں، طاقت و کثرت کی بیماری کا درمان کریں، اپنی خریت سے انسانیت کو لگد مارنا چھوڑ دیں،ضعیف و ناتوانوں کو اسیری سے دچار کرنے کے سنہرے خواب نہ دیکھیں۔
اب یہ چھوٹی سی دنیا اور جنگ و جدل کی متحمل نہیں ہوسکتی، تمہارے جھوٹے امن کے دلاسے، ملکوں کی غارت گری، ورثوں، تہذیبوں پہ ڈاکے، اسلحہ فروشی کا دھندا، کسی نئے ویتنام کو جنم دیں گے، یہ ایک تیر سے دو شکار نہیں، احمقانہ اقدام ہے، داعش کے شکار سے فرصت میں استراحت کرنے والے شیروں کو للکار، یا پھر مشرق وسطیٰ کے مردہ ضمیر، تخت نشین شہزادوں کی نئی مشغولیت تو نہیں، اب کے آگ بھڑکی تو دامن آپ کا بھی جلس جائے گا، انگارے آپ پر بھی برسیں گے، سمندروں کے ساحل پر اپنے سہاگ کے انتظار میں گلدستہ لئے یا پھر صف ماتم بچھائے بیٹیاں آپ کی بھی بیٹھیں گئی، اس لئے حماقتیں چھوڑ دیں، بس وہ ایک سفید ریش سلیمانی نہیں تھا، بس وہ ایک مھندس نہیں تھا بلکہ درسگاہیں تھیں، جنہوں نے ہزاروں کا لشکر سلیمان بنا رکھا ہے، جن کا ایک سپاہی تخت بلقیس پہ بھاری ہے، کب تک بلوں میں رہ پاؤ گے، باز آجاؤ، باز آجاؤ۔