رمضان المبارک اور سحرکے وقت
انسان کا اہم ترین فریضہ سحر کے وقت قصد ہے؛ کیونکہ آدمی نیت سے مکمل قرب تک پہونچتا ہے۔ ماہ صیام اور قیام میں داخل ہونے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شب، شب اول کی نیت کے علاوہ کہ پورے مہینہ کے روزہ کی نیت کرتا ہے؛ کل کے روزہ کی خداوند عالم کے فرمان کی بجا آوری کے قصد سے نیت کی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کو اہل فریضہ بنادیا اور "یا ایھا الذین آمنوا" کے خطاب کے لائق بتایا اور ان پر احسان کیا کہ مہمانی کے لئےدعوت نامہ لکھا اور عظیم ترین اور بلند و بالا شخصیت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کے ذریعہ اس کا سب کے لئے اعلان کرایا۔
لہذا اپنی نیت اور قصد میں حضرت ربوبی کے استحقاق اور اپنی اہلیت کو نظر میں رکھے اور اس کے سوا کچھ اور اپنے دل و دماغ میں نہ لائے اور اس کے علاوہ اپنے دل میں کوئی اور چیز پروان نہ چڑھائے۔ حضرت مولی الموحدین امیرالمومنین علی بن ابیطالب (ع) کی مناجات کو یاد کرے کہ آپ خدا کے حضور اس طرح کہتے ہیں: " میں تیری نہ جہنم کے خوف سے اور نہ ہی جنت کی لالج میں عبادت کرتا ہوں۔ میں نے تجھے عبادت کا اہل پایا تو تیری عبادت کرتا ہوں۔"
لیکن افسوس کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ روزہ رکھنے سے مختلف اغراض و مقاصد اور گوناگوں فوائد نظر میں رکھتے ہیں۔ جیسے کہ اگر روزہ رکھنے سے صحت و تندرستی حاصل نہ ہو اور حفظان صحت کے عمل میں اگر مرکز بدن اور معدہ پر کوئی اثر نہ ہو تو وہ روزہ نہیں رکھیں گے۔ اگر چہ فرمان خداوند ی کی بجاآوری کے ساتھ روزہ رکھنے میں یہ فوائد بھی ہیں اور خود بخود حاصل ہوتے هیں۔ فکر کرنے اور سوچنے اور اس طرح کا قصد کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور کبھی یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے اطراف و جوانب میں پروپگینڈہ بھی کریں کہ روزہ بہت ہی اچھا عمل اور حفظان صحت کے لئے ضروری ہے۔
روس کے ایک ڈاکٹر نے اس طرح کہا ہے کہ اگر کوئی بیماری سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ کھانے اور پینے سے پرہیز کرے۔ پرہیز فاسد اور خراب شدہ غذاؤں کو حل کرکے زائل کردیتا ہے اور اگر کبھی جلد کے اندر غذا کا اثر ہوگیا ہو تو ان کو پانی کردیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ شخص فرمان الہی اور شارع مقدس اسلام کے حکم کی طرف توجہ نهیں رکھتا تھا۔ گویا خود کو اسلام کے حیات بخش قوانین سے بے نیاز جانتا ہے یا خود کو خدا کا مطیع بندہ نهیں سمجھتا اور اس طرح خیال کرتا ہے کہ فلاں روسی ڈاکٹر کا کہنا، رسولخدا (ص) اور دینی پیشوا کے اقوال سے زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں اگر کوئی یہ سوچتا ہے تو یہ اس کی کج فہمی اور اس کا اپنا خیال ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے صرف سنا ہے کہ روزہ واجب ہے اور ایک ماہ تک روزہ رکھیں لیکن کیوں اور کس لئے؟ اور اس کا کیا فائدہ اور اثر ہے اور اس کی تشریع کا مقصد کیا ہے؛ کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ جبکہ عارفانہ قدم اٹھانا ضروری اور بصیرت و آگہی کے ساتھ خدا کا بندہ بن کر اپنے علی الاطلاق مولا اور حکیم کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے۔
ایک دوسرا عمل جس کی سحر کے وقت رعایت ضروری ہے اور در حقیقت قصد اور نیت کو تمام کرنے والی ہے؛ وہ دعائیں، مناجات اور اذکار ہیں کہ ان میں سے بلندترین دعا، امام زین العابدین (ع) کی دعا ہے جو دعائے ابوحمزہ ثمالی کے نام سے مشہور ہے اور مختصر ترین اور جامع دعا ہے۔
سحر کے وقت نماز شب فراموش نہ ہو کیونکہ ایک بہترین موقع ہے اور اس طرح کا موقع ہمیشہ ہاتھ نهیں آتا۔ اس کی بے شمار اجر و ثواب کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔ علامہ مجلسی (رح) نے تقریبا 40/ صفحات اس کی فضیلت میں لکھے ہیں کہ مثال کے طور پر اس کی چند روایت کو ذکر کرتے ہیں:
زرارہ نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ "نماز شب دن میں کئے ہوئے (گناہوں) کا کفارہ ہے۔"
جبرئیل، حضرت محمد (ص) کی خدمت میں آئے اور کہا:اے محمد! جس طرح کی زندگی چاہو گذارو آخر کار مرنا ہی ہے اور جس کو دوست رکھتے ہو آخر کار اس سے جدا ہو کے رہوگے اور جو چاہو کرو اس کی جزا ملے گی۔ جان لو کہ مرد کی شرافت اس کی شب زندہ داری اور اس کی عزت لوگوں سے بے نیازی میں ہے۔
امام باقر (ع) سے روایت کی گئی ہے کہ تین چیزیں درجات کا سبب ہیں: سلام کا اظہار اور اسے رواج دینا، کھانا کھلانا ، اور جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز شب پڑھنا۔
سحر اور افطار کے وقت خاص کر سورہ "انا انزلناہ" کا پڑھنا مستحب ہے۔ روزہ دار سحر کے وقت سحری کھائے تا کہ اس کے روزہ رکھنے میں معاون اور مددگار ہو، امام صادق (ع) نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے رسولخدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: سحری کھا کر دن کے روزہ اور قیلولہ کرکے شب خیزی میں مدد کرو۔
سحری کھانے کی فضیلت کے سلسلہ میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں اس لئے کہ اگر انسان سحری کھائے گا تو آسانی کے ساتھ روزہ رکھ سکتا ہے اور جب جسمانی طاقت ہوگی تو وہ عبادت بھی آسانی اور خضوع و خشوع کے ساتھ کرسکتا ہے۔