بعثت

رسولخدا (ص) کی بعثت حضرت علی (ع) کی نظر میں

حضرت علی (ع)، رسولخدا (ص) کے زمانہ میں اعراب کی سماجی حالت اور پیغمبر (ص) کی بعثت کو بیان کررہے ہیں

27/ رجب کو غار حرا میں سب سے پہلے ایات خداوندی کا حضرت محمد (ص) پر نزول ہوا اور آپ کو پڑھنے کی دعوت دی۔ "رب" کے نام سے پڑھنے کی دعوی اس رب کے نام سے جس نے انسان اور ساری مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔ وہ رب کریم جس نے انسان کو قلم سے استفادہ کرنے کی تعلیم دی اور آپ کو ان علوم کی تعلیم دی جسے کبھی آپ جانتے نہیں تھے۔  رسولخدا (ص) نے خدا کے نام سے لوگوں کو خدا کی جانب دعوت دی، لہذا یہ دن بہت ہی عظیم دن ہے۔

انبیاء کی بعثت انسان کی فطری اور طبیعی ایک ضرورت ہے؛ کیونکہ صرف آسمانی کتاب کارساز نہیں ہے۔ خداوند عالم نےپیغمبروں کو راہ کی وضاحت کرنے اور لوگوں کو حق کی جانب ارشاد و ہدایت کرنے اور راہ درست دکھانے کے لئے مبعوث کیا ہے تا کہ سب حق واضح ہوجائے۔ اسی طرح تھا کہ پوری تاریخ میں انبیاء و رسل یا ان کے اوصیاء لوگوں کی ہدایت کے لئے آئےاور لوگوں کو آگاہ کیا اور ڈرایا تا کہ کہیں نفسیانی خواہشات کی پیروی کرکے صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائیں۔

رسولخدا (ص) کی بعثت حضرت علی (ع) کی نظر میں

حضرت علی (ع)، رسولخدا (ص) کے زمانہ میں اعراب کی سماجی حالت اور پیغمبر (ص) کی بعثت کو بیان کررہے ہیں۔ خداوند عالم نے حضرت محمد (ص)کو  لوگوں کو آگاہ کرنے اور تعلیم دینے اور قرآن کی پاسداری اور حفاظت کرنے کے لئے بھیجا جبکہ تم عرب بدترین آئین کی ماننے والے اور فاسدترین مقام کے حامل تھے۔ تم لوگ پہاڑوں کے درمیان زندگی گذارتے اور کاٹنے والے سانپوں کے درمیان رہتے تھے۔ سڑا ہوا بد بو دار پانی پیتے اور سوکھی روٹی کھاتے تھے۔ اس کے باوجود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور اپنے رشتہ داروں سے برا سلوک کرتے تھے۔ تمہارے درمیان بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور تمہارا پورا وجود گناہوں کا مجسمہ تھا۔ ایسے ماحول میں جہاں خرافات اور جاہلیت کے آداب و رسوم کا دور دورہ تھا اور پورا معاشرہ اسی بت پرستی اور گناہ کے لپیٹ میں تھا، ایسے ناگفتہ بد حالات میں خداوند عالم نے حضرت محمد (ص) کو بھیجا تا کہ آپ ان لوگوں کو چشمہ حقیقت اور صراط مستقیم کی ہدایت کریں۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد صحیح افکار و نظریات کی تقویت اور لوگوں کی علمی سطح کو بلند کرنا تھا۔

امام کاظم (ع) فرماتے ہیں: خداوند عالم نے انبیاء و رسل کو لوگوں کی فکری بلندی اور نظریاتی قرقی کی راہ دکھانے کے لئے مبعوث کیا ہے۔

بعثت کا ایک مقصد اخلاقی اقدار کی تکمیل اور ترقی ہے۔ رسولخدا (ص) مبعوث ہوئے تا کہ لوگوں کے اخلاق کی اصلاح اور تکمیل کریں اور ان کے برے اور ناپسندیدہ اخلاق کو ان سے دور کریں اور نیک اور پسندیدہ اخلاق کی تعلیم دیں۔

27/ رجب اسلامی عیدوں میں سے ایک عظیم عید ہے۔ جس دن رسولخدا (ص) مبعوث ہوئے ہیں اور آپ (ص) پر وحی الہی کا نزول ہوا ہے۔ اس دن اسلام کی ولادت کا دن ہے۔ ایسا دن ہے کہ لوگ ظلمتوں سے نکل کر نور کی طرف آئے ہیں، لہذا امت مسلمہ اس دن جہاں کہیں بھی ہو پوری دنیا میں جشن منائے، خوشی منائے، اعلی پیمانہ پر سرور و شادمانی کی محفلیں منقعد کریں۔

مبعث کے بارے میں مہاتما گاندھی کا نظریہ

مہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ رسولخدا (ص) کی آسمانی اور روحانی شخصیت نے صرف اپنے ماننے والوں کو ہی اپنا گرویدہ نہیں بنایا ہے، بلکہ بہت سارے غیر مسلم دانشوروں اور بزرگوں کو بھی اپنی عظمت کا قصیدہ پڑھنے پر مجبور کیا ہے تا کہ اس الہی انسان کی عظمت و شان کو بیان کریں۔

گاندھی کہتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) عظیم پیغمبر، رہنما اور ایک بہادر انسان تھے اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ آپ نے کبھی وہ کام کرنے کو نہیں کہا جس پر خود عمل نہیں کرتے تھے۔ جب ہم نے آپ کی اور آپ کے خاندان کے بارے میں پڑھا کہ ان لوگوں نے کتنے مصائب و آلام سہے ہیں تو آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:

روز مبعث وہ دن ہے کہ خداوند عالم نے کامل ترین موجود کو ہدیات انسانی کے لئے بھیجا۔ آپ کی بعثت کا مقصد ظلم و جور کا خاتمہ ہے اور لوگوں کے اندر ظلم اور بڑی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کی جرات و ہمت دینے کے لئے بھیجا۔ لوگوں کے اخلاق، ان کے باطن اور ارواح کو پاکیزہ بنانے اور ان سب کو ظلمتوں سے نجات دینے کے لئے بھیجا ہے۔

ہماری لڑ کھڑاتی زبان سے مسئلہ بعثت اور اس کی برکتوں کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے مبارک اور عظیم دن تاریخ میں نہیں ہے یہ سارے انسانوں کے لئے عید کا دن ہے۔

ای میل کریں