جیسا کہ عرفا اور حکماء نے معصومین (ع) کی صحیح احادیث کی روشنی میں خاتمیت کہ آخر زمانہ کی امت کی دیگر رسولوں سے بے نیازی ہے ، کو رسولخدا (ص) کی عترت طاہرہ کے وجود اور ولایت اور آپ حضرات کے معارف کے استمرار میں جانا ہے اور ان ہستیوں کی ولایت آسمانی اور الہی ولایت ہے۔
ایک طرف ان کی جامعیت پیغمبر ختمی مرتبت (ص) کے معارف یعنی شریعت، طریقت اور حقیقت کے علوم میں ثابت کرتے ہیں اور دوسری طرف باب ولایت اور معارف الہی کے افتتاح اور اولیائے صفار کے ظہور میں رسولخدا (ص) اور آپ کے خاندان کی مشکات نور کی روشنی میں ہدایت تلاش کرتے ہیں، ثابت ہوتی ہے۔ فطری ہے کہ پیغمبر کی ولایت کا استمرار اور آپ کی خاتمیت ایک وسیع باب کھولتی ہے جس میں ساری عبادی، اعتقادی اور رفتاری تمام پہلو پائے جاتے ہیں اور روحانی، ذہنی، اخلاقی، اعتقادی اور معارفی حقیقی میدانوں میں واقعی ضرورتوں کو پوری کرتے ہیں۔
اس خصوصیت کے ساتھ کہ پیغمبر کی خاتمیت کی بے نیازی، انسان کے ادیان کے کمال ، عقول کے نتائج اور فطری تقاضوں کی نسبت کی طرح کی کمی نہیں رکھتی بلکہ انبیاء کی سیر اور ان کی شریعتوں کے بند تالوں کو بھی کھول دیتی ہے اور سیر و سلوک اور علوم و معارف کے اخذ کرنے میں مکمل طور پر ان کے کمال کو راستہ دے دیتی ہے۔
اس بنا پر پیغمبر یا امام وہ ذات ہے جو دین کے علمی اور عملی تمام شعبوں میں جو افراد کی صلاحیت اور سلوک کی مدد سے ایک طرح کا اعلی فکری علمی اور عملی رابطہ پیدا کرتی ہے، اس پر احاطہ رکھتی ہے اور حقیقی طور پر یہ ہستیاں دینداری کی میزان اور معیار قرار پاتی ہے؛ کیونکہ یہ ذوات مقدسہ دین پیش کرنے کے لئے بنی آدم کے درمیان موجود اقوام و ملل کی زبان میں ہی رہبری اور ہدایت کے منصب پر فائز ہوتی ہیں۔ اگر دین کی دینداروں کے عقائد اور علماء کے فریضہ کو تبلیغ دین اور احکام کے بیان کو واضح فریضہ کے ساتھ معاشرہ کے لئے تعریف کی جائے تو پھر دین اور دینداری انسانی معاشرہ کی ہدایت کے مقابلہ کسی فریضہ کا ذمہ داری نہیں ہے جبکہ لوگوں کے افکار و نظریات، اعتقادی گروہ بندی، محاذ آرائی، آداب و رسولم علمی اور قومی معاشرہ کی زبان اور ثقافت تبلیغ دین کے لئے یا دین کے دفاع ابتدائی ترین مسئلہ ہوگا اور یقینی طور پر دینی علماء جود خود کو رسولخدا (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی میراث کا حامل جانتے ہیں اور اپنی حقانیت کا اسی سے اثبات کرتے ہیں تو پار اس کے مقابلہ ان کی بہت بڑی ذمہ داری ہوگی۔
یقینا اگر انسان خود کو الہی معارف اور دینی آئین و فرامین کی روشنی میں ڈھالے اور اپنی زندگی کا ہر پل اسی کے مطابق گذارے اور انسانی معاشرے کے لئے اسماء و صفات الہی و نبوی کا مظہر بنا کر پیش کرے تو معاشرہ کی رہبری کا فریضہ بہت ہی سنگین اور عظیم ہے۔
رسولخدا (ص) اور ائمہ اطہار (ع) تمام اسماء اور صفات الہی کا مکمل جلوہ اور مظہر تھے۔ ان ہستیوں کو دیکھ کر دین اور دین کو دیکھ ان ہستیوں کا تصور ہوتا ہے کہ نہ دین ان سے جدا ہے نہ یہ دین سے، یہی ذوات مقدسہ دین ہیں، ان کا کردار، ان کی رفتار و گفتار، سیرت اور روشن کا نام دین ہے اور یہ تمام انسانی اقدار و اصول کے پاسدار هیں، انہی سے دین کا رواج ہوا اور انہی سے دین متعارف ہوا ہے۔