امیرالمومنین

ولادت امیر المومنین (ع)

حکم خدا سے خانہ کعبہ کی دیوار شگافتہ ہوئی اوراس وقت فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے اندر گئیں اور پھر دیوار آپس میں مل گئی

مورخین کے بقول شیعوں کے پہلے امام حضرت علی (ع) بروز جمعہ 13/ رجب سن 30/ عام الفیل کو خانہ خدا (کعبہ) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی جناب ابوطالب ہیں اور مادر گرامی فاطمہ بنت اسد ہیں۔ اس بنا پر حضرت علی (ع) دونوں طرف سے ہاشمی ہیں۔

آج کے دن وہ بچہ مسکرائے گا جو عدالت کی عاشقانہ تفسیر کرے گا۔ آج کے دن خانہ کعبہ کا سکوت وہ توڑے گا جو ایک خورشید کے بلند و بالا شانوں پر کھڑا ہو کر معرفت کی تبر سے اپنے زمانہ کے بتوں کو توڑے گا۔ آج وہ ستارہ درخشاں ہوگا جس کی درخشندگی مظلومیت کی مہربان آغوش ہے۔ آج کے دن صاحب ذوالفقار حیدر کرار کی آمد ہے۔

آپ کے والدہ گرامی خداپرست اور موحد خاتون تھیں اور ابراہیم(ع) کے دین حنیف پر زندگی گزار رہی تھیں اور مسلسل خدا کی بارگاہ میں مناجات کررہی تھیں اور درخواست کررہی تھیں کہ خدایا! میرے وضع حمل کو آسان کردے۔ فاطمہ بنت اسد اپنے فرزند کے وضع حمل کے وقت خانہ کعبہ کی زیارت کو گئیں اور خدا سے درخواست کی: خدایا! میں تجھ پر اور تیرے طرف سے آنے والے رسول اور نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے جد ابراہیم کی باتوں کی تصدیق کرتی ہوں۔ اپنوں نے ہی اس بیت عتیق کی بنیاد ڈالی ہے۔ اس ذات کا واسطہ جس نے اس گھر کو بنایا ہے اور میرے شکم میں موجود بچہ کا واسطہ اس کی ولادت کو میرے لئے آساں کردے۔

حکم خدا سے خانہ کعبہ کی دیوار شگافتہ ہوئی اوراس وقت فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے اندر گئیں اور پھر دیوار آپس میں مل گئی۔ فاطمہ تین دن بعد باہر آئیں تو حضرت علی (ع) آپ کی آغوش میں تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں خانہ خدا کے اندر داخل ہوئی اور جنت کے پھلوں کو کھایا اور جب باہر نکلنا چاہا تو ہاتف غیبی نے آواز دی: اے فاطمہ! اس کا علی نام رکھو کہ وہ علی ہے اور خداوند علی اعلی فرماتا ہے کہ میں نے اس کا نام اپنے سے مشتق کرکے علی رکھا ہے اور اپنے ادب سے انہیں ادب سکھایا ہے اور انہیں اپنے علوم سے تعلیم دی ہے۔ وہی میرے گھر میں موجود بتوں کو توڑیں گے، وہی میرے گھر کی چھت پر جا کر آذان دیں گے اور میری پاکیزگی بیان کریں گے اور میری عبادت کریں گے۔ اس کو مبارک ہو جو انہیں دوست رکھے اور ان کے حکم کو مانے اور اس پروای ہو جو اس سے دشمنی کرے اور ان کی مخالفت اور نافرمانی کرے۔ کعبہ کے اندر یہ افتخار اور امتیاز صرف علی کی حاصل ہے اور اب تک کسی انسان کو یہ فضیلت نہیں ملی ہے۔ بعض روایت میں ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے اپنے بچہ کا نام حیدر رکھا تھا لیکن غیبی آواز کے بعد یہ لقب ہوگیا۔ آپ کے القاب اسداللہ، مرتضی، امیرالمومنین، اخو رسول الله و غیرہ ہیں اور آپ کی کنیت، ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔

حضرت علی (ع) عقلمندوں کے نمونہ، مظلوموں اور ستمدیدہ کے حامی و مددگار، محروم اور بے سہارا کے مونس و غمخوار، یتیموں کے والد بزرگوار، عدالت و انصاف کا سرچشمہ، حق و حقیقت کے بانی، امامت و ولایت کے حقدار ہیں۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: آج کے دن (13/ رجب) کو پیدا ہونے والا بچہ انسانی بلند و بالا تمام پہلووں سے بلندی اور کمال کی آخری منزل پر فائز ہے۔ انسان اس کی توصیف کرنے سے عاجز ہے؛ اس کی جس قدر تعریف کی جائے آپ کی شان و منزلت سے کم ہوگی۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: مقام علی بن ابی طالب کی قسم اگر ملائکہ مقربین اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کے علاوہ سارے انبیاء و رسل ان کے جیسی ایک تکبیر کہنا چاہیں تو نہیں کہہ سکتے ۔ ان کے دلوں کا حال صرف اور صرف خدا جانتا ہے۔

شرح چہل حدیث، ص 75 اور 76

ای میل کریں